'پاکستان:جمہوریت کو روشن کرنے والے پانچ' چراغ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-04-2022
'پاکستان:جمہوریت کو روشن کرنے والے پانچ' چراغ
'پاکستان:جمہوریت کو روشن کرنے والے پانچ' چراغ

 

 

اسلام آباد : پاکستان میں آخر کار جمہوریت جیت گئی،سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی میں حکمراں پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے سیاسی داو کو پلٹ دیا ۔ڈپٹی اسپیکر کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیدیا۔جمہوریت کا بول بالا ہوا۔اب قومی اسمبلی میں 9اپریل کو تحریک عدم اعتماد کے ساتھ وٹنگ ہوگی ۔جو بھی جیتے گا اسے حکومت کرنے کا حق ملے گا۔ 

بہرحال اس پورے سیاسی بحران میں اگر کسی کا روشن چہرہ سامنے آیا تو وہ پاکستانی عدلیہ کا ہے۔ جس نے حکومت کے فیصلے اور قومی اسمبلی میں داو پینچ کی ہوا نکال دی ہے۔ 

یہ کارنامہ انجام دینے والے ہیں پانچ جج ،جنہوں نے اس پورے معاملہ کو پانچ دنوں تک سنا اور دلائل کو پرکھا۔ آج فیصلہ دیا جس نے عمران خان کے داو کو پلٹ دیا۔ 

پاکستان میں جمہوری تاریکی کو دور کرنے والے یہ پانچ جج اب دنیا کی نظر میں ہیں ۔جن کے فیصلے نے جمہوری بد دیانتی کو ختم کردیا اور جمہوریت کے لیے ایک نئی امید پیدا کردی ہے۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ان ججوں پر جنہوں نے ملک کو پیغام دیا کہ قانون سے اوپر کوئی نہیں ۔

چیف جسٹس عمر عطا

بندیال چیف جسٹس عمر عطا بندیال سابق صدر پرویز مشرف کے 2007 میں دوسرے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف لینے سے انکار کرنے والے ججوں میں سے ایک ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال 2019 میں قاسم سوری کے انتخاب کو کالعدم قرار دیے جانے سے متعلق الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ اسی تین رکنی بینچ نے قاسم سوری کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکم جاری کیا تھا کہ جب تک الیکشن ٹریبونل کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا، اس وقت تک متعلقہ حلقے میں ضمنی انتخاب نہ کروائیں۔ اس کے بعد قاسم سوری رکن اسمبلی کے ساتھ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر بھی برقرار رہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال 2019 میں وزیراعظم عمران خان کو ’صادق اور امین‘ قرار دینے سے متعلق فیصلہ دینے والے بینچ میں بھی شامل تھے، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف دائردرخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کےسربراہ بھی رہ چکےہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن ‎

 جسٹس اعجاز الاحسن نے کئی اہم کیسوں کی سماعت کی، وہ 2006میں سپریم کورٹ میں تعینات ہوئے تھے۔ بڑے کیسوں کی سماعت کی جن میں پاناما پیپرز کا کیس بھی شامل ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن سماعت کرنے والے بینچ کے رکن تھے جس نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا گیا۔ انہیں اور ان کے بچوں کے حوالے سے نیب میں ریفرنس دائر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ حالیہ کیس میں ’اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے؟‘ جیسے ریمارکس دینے والے جسٹس اعجاز الاحسن سینیٹ اوپن بیلٹ کیس کے پانچ رکنی بینچ کا حصہ بھی رہے، جس نے انتخابات سیکریٹ بیلٹ پر ہی رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

جسٹس مظہر عالم

تحریک عدم اعتماد کیس کے لارجز بینچ کے تیسرے جج جسٹس مظہر عالم ہیں جو 2016 میں پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ کا حصہ رہے، جس میں سابق فوجی صدر کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔ اسی عدالت نے ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ کیس اپنی نوعیت کا تاریخ کا پہلا ایسا کیس تھا جس میں آرٹیکل چھ کے تحت ایک فوجی آمر کے خلاف کارروائی کی گئی اور اسے اشتہاری قرار دیا گیا۔

جسٹس منیب اختر جسٹس مظہر عالم دس رکنی لارجر بینچ کے ان چھ ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 2021 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست منظور کی۔

 جج جسٹس منیب اختر

اس کیس کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا آیا جہاں جسٹس منیب اختر نے دوسرے فاضل جج کی ’بات میں مداخلت نہ کریں، یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی، دوسرے کا موقف بھی سننا چاہیے‘ کے ریمارکس دیے۔ جسٹس منیب اختر 2018 میں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل 2021 میں سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات ہوئے تھے اور وہ سپریم کورٹ کی تاریخ کے پہلے بلوچ جج بھی ہیں۔ یہ سات سال میں پہلی ایسی تعیناتی تھی جہاں بلوچستان ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں کسی جج کو تعینات کرنے کی سفارش کی گئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل بھی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کا حصہ تھے۔