ٹرکوں کےنیچے چھپ کر سامان بیچنے پاکستان جاتے ہیں افغان بچے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 16-09-2021
 ٹرکوں کےنیچے چھپ کر سامان بیچنے پاکستان جاتے ہیں افغان بچے
ٹرکوں کےنیچے چھپ کر سامان بیچنے پاکستان جاتے ہیں افغان بچے

 

 

کابل: ٹرکوں کے نیچے چھپ کر افغانستان سے مختلف اشیا فروخت کرنے کی خاطر پاکستان آنے والے بچوں نے لاکھوں لوگوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کروا رکھی ہے۔

پاکستان کے شمال میں واقع طورخم بارڈر کراسنگ مشہور خیبر پاس کے ساتھ واقع ہے اور یہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان براہ راست رابطہ ہے۔ یہ ایک بڑا تجارتی مرکز ہونے کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصروف ترین کراسنگ بھی ہے۔

ہر روز درجنوں افغان بچے ٹرکوں کے نیچے چھپ کر افغانستان سے پاکستان آتے ہیں تاکہ تازہ پھلوں، سبزیوں اور اشیائے ضروریہ کی بوریاں فروخت کرکے گھر والوں کیلئے پیسے کمائے جاسکیں۔

طورخم کے راستے پاکستانیوں کے افغانستان داخلے پر پابندی عائد، افغان بارڈرپولیس اس سامان میں پان کے پتے ، سگریٹ اور بیت الخلا کی اشیا بھی موجود ہوتی ہیں، کچھ سامان یہ منافع پر بیچ سکتے ہیں کیونکہ وہ کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ چیزیں جو پاکستان میں آسانی سے دستیاب نہیں ہیں، ایران سے لائی جاتی ہیں۔ بچوں کے مطابق وہ دن میں کبھی ایک بار تو کبھی دو بار بارڈر کراس کرتے ہیں، بارڈ کراس کرنے کے لیے یہ بچے افغانستان سے پاکستان جانے والے مال بردار ٹرکوں کے نیچے پہیوں کے درمیان چلتے جاتے ہیں اور سرحد پار ہوتے ہی نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور ٹرک آگے نکل جاتا ہے۔

بچے یہ طریقہ ٹرک ڈرائیوروں کے خوف سے اختیار کرتے ہیں کیوں کہ پکڑے جانے پر ٹرک ڈرائیور تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔

  یوں تو یہ سفر مختصر ہوتا ہے لیکن یہ بلی اور چوہے جیسے خطرناک کھیل سے کم نہیں ہے۔ بچے چلتے ہوئے ٹرکوں کے نیچے چھپتے ہیں، بعض اوقات انجن کے دھوئیں، اور آئل کی چکنائی کے سبب ان کی گرفت ڈھیلی ہونے لگتی ہے لیکن اپنے پیٹ پالنے کے لئے یہ ان کی مجبوری ہے۔

ان ہی میں سے ایک 11 سالہ فرید نامی بچے نے خلیجی جریدے 'دی نیشنل' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے لیکن والدہ زندہ ہیں، اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے مجھے یہ خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق خشک سالی، تنازعات اور خوراک کی قلت نے پہلے ہی ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد کو بھوک سے دوچار کردیا ہے۔

بچوں کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ انہیں بوریاں کون دیتا ہے۔ وہ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ایک گمنام شخص افغانستان میں بوریاں ان کے حوالے کرتا ہے اور پاکستان پہنچنے کے بعد ایک ایجنٹ کو ڈیلیوری کر دی جاتی ہے۔

بچے ٹرکوں کے آنے کا انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی اس کی رفتار آہستہ ہوتی ہے وہ بھاگ کر ٹائروں کے اندر سے جاکر کہیں چھپ جاتے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک افغان ڈرائیور نے بتایا کہ بچے روزانہ گاڑی کے نیچے چھپ جاتے ہیں اور سرحد عبور کرتے ہیں۔

کئی مرتبہ انہیں چوٹ بھی لگتی ہے، اکثر پکڑے جانے پر بغیر اجازت سرحد عبور کرنے پر فوج انہیں واپس بھی بھیج دیتی ہے۔ دی نیشنل کی رپورٹ کے مطابق اب طالبان کے افغانستان پر مکمل کنٹرول کے بعد سرحد عبور کرنا تھوڑا مشکل ہوسکتا ہے اور اس میں کئی دن بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ نئی اعلان شدہ حکومت نے ابھی تک کراسنگ کا کوئی عمل وضع نہیں کیا ہے۔