امریکہ: ایک بل جو پاکستان کی نیند اڑا رہا ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-09-2021
فائل فوٹو
فائل فوٹو

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد طالبان تو اقتدار میں آگئے لیکن اب نئی الجھنیں اور پیچیدگیوں نے دنیا کے سامنے جو نئے چیلنج پیدا کئے ہیں ،ان کا سامنا کرنے کے لیے اب عالمی برادری نے اپنے اپنے انداز میں اقدام کرنے شروع کردئیے ہیں ۔بات صرف طالبان کی نہیں بلکہ اس کے حامی ممالک کا بھی مسئلہ ہے۔ جن کے سبب طالبان نے آج دنیا کے سامنے ایک بڑا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔اگر افغانستان میں امریکہ ناکام ہوا تو اس کے پیچھے ایک سبب یہ بھی ہے کہ طالبان کو در پردہ کہیں نہ کہیں سے مدد یا حمایت حاصل ہورتی رہی۔

یہی وجہ ہے کہ اب امریکہ کے 22 ریپبلکن سینیٹرز نے افغانستان میں طالبان اور ان کی مدد کرنے والی غیر ملکی حکومتوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا بل پیش کیا۔ یہ بل سینیٹر جم ریش نے پیش کیا۔ جس میں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کے فیصلے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا جائزہ لینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ان طاقتوں کو بے نقاب کیا جائے جنہوں نے طالبان کو پچھلے بیس سال کے دوران در پردہ مدد دی۔

اس بل کو ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جم ریش نے ’افغانستان کاؤنٹر ٹیررازم، اوور سائٹ اینڈ اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ‘ متعارف کرایا۔ بل میں امریکی محکمہ خارجہ سے 2001-2020 کے درمیان طالبان کی حمایت میں پاکستان کے کردار کے بارے میں رپورٹ طلب کی گئی ہے۔یہ بل وزیر خارجہ سے وادی پنجشیر میں افغان مزاحمت کے خلاف طالبان کے حملے میں پاکستان کی حمایت کے بارے میں بھی رپورٹ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس بات کا سب کو علم ہے کہ پاکستانی ایر فورس کی کارروائی کے سبب ہی طالبان نے اس خطہ پر قبضہ کیا تھا ۔جس پر ایک وقت روس بھی قابض نہیں ہوسکا تھا۔ اس کو افغانستان کی تاریخ میں ’’پانچ شیروں ‘ کی وادی کہا جاتا ہے۔

اس میں طالبان کو محفوظ پناہ گاہوں، مالی اور انٹیلیجنس مدد، طبی ساز و سامان، تربیت اور تکنیکی یا سٹریٹجک رہنمائی کا معاملہ بھی شامل ہو اور امریکی انتظامیہ سے ان معاملات کی تحقیقات کے بعد ’180 دن میں پہلی رپورٹ‘ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ؟ اب سوال یہ ہے کہ اس وقت بد ترین اقتصادی بحران کا شکار پاکستان اس کا بوجھ ڈھو پائے گا یا نہیں ۔بلا شبہ اس بل کا مقصد دنیا کی توجہ مر کوز کر نا ہے۔ دنیا کو یہ بتانا ہے کہ پاکستان نے پردے کے پیچھے کیا کھیل کیا ہے۔

بل میں سب سے اہم بات یہ ہے جس میں ان عناصر پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے جن پر طالبان کو مدد فراہم کرنے کا الزام ہے اور اس میں بیرونی حکومتیں بھی شامل ہیں اور پاکستان کا اس میں بالخصوص نام لیا گیا ہے۔

 جم ریش نے سینیٹ میں بل پیش کرنے کے بعد کہا "ہم افغانستان سے صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے لاپرواہ انخلا کے سنگین اثرات کو دیکھتے رہیں گے۔

 ہم نے نہ جانے کتنے امریکی شہری اور افغان اتحادی طالبان کے خطرے کے درمیان افغانستان میں چھوڑ دیا ۔ ہمیں امریکہ کے خلاف ایک نئے دہشت گردانہ خطرے کا سامنا ہے جبکہ طالبان افغان لڑکیوں اور عورتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے تسلیم کرانا چاہتا ہے۔

 واضح رہے کہ امریکی سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور رپبلکن سینیٹرز کی تعداد برابر ہے (دونوں کے 50، 50 ممبران ہیں) اور کسی بل کو پیش کرنے اور اس کو منظور کرانے کے لیے اکثریت نہ ہونے کی صورت میں نائب صدر کملا ہیرس کا حتمی ووٹ استعمال کیا جائے گا۔دریں اثنا، ایک اعلیٰ امریکی فوجی جنرل نے کہا کہ طالبان جو اب افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں ، 2020 کے دوحہ معاہدے کا احترام کرنے میں ناکام رہے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم القاعدہ سے ابھی تک الگ نہیں ہوئی ہے۔

امریکی جوائنٹ چیفس آف ا سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ دوحہ معاہدے کے تحت امریکہ کو اپنی افواج کا انخلا شروع کرنا تھا جس کی وجہ سے طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان ایک سیاسی تصفیہ ممکن ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت طالبان کو سات شرائط اور امریکا کو آٹھ شرائط پوری کرنی تھی، ملی نے کہا کہ طالبان نے امریکی افواج پر حملہ نہیں کیا جو کہ ایک شرط تھی، لیکن وہ دوحہ معاہدے کے تحت کسی بھی دوسری شرائط کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اور شاید امریکی قومی سلامتی کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ طالبان نے کبھی القاعدہ سے علیحدگی اختیار نہیں کی اور نہ ہی ان سے تعلقات منقطع کیے۔دوسری جانب امریکہ نے اپنی تمام شرائط پوری کیں۔

یہ واضح ہے کہ افغانستان کی جنگ ان شرائط پر ختم نہیں ہوئی جو امریکہ چاہتا تھا۔ یکم مئی کو جب امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا شروع کیں تو طالبان نے ملک کے کئی حصوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور 15 اگست کو اس نے کابل پر بھی قبضہ کر لیا۔ ملی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کا خیال ہے کہ القاعدہ افغانستان میں ہے اور وہ دوبارہ اکٹھے ہونا چاہتے ہیں۔

پاکستان ہے پریشان

 پاکستان نے امریکی سینیٹرز کی جانب سے طالبان کو مدد فراہم کرنے والے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے کردار کا جائزہ لینے کے بل کو سینیٹ پیش کرنے پر ردعمل میں کہا ہے کہ خطے میں مستقبل میں کسی ممکنہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مستقل سکیورٹی تعاون کی اہمیت ہے۔ اس لیے اس طرح کی مجوزہ قانون سازی نامناسب، بلاجواز اور نقصان دہ ہوگی۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے کیے جانے کے سوالوں کے جواب میں کہا ہے کہ ’ہم میڈیا اور کیپٹل ہل میں افغانستان سے امریکہ انخلا کے حوالے سے جاری بحث کو دیکھ رہے ہیں۔ امریکی سینیٹ میں ری پبلکن سینیٹرز کی جانب سے قانون سازی کے لیے بل پیش کیا جانا اسی بحث کا ردعمل دکھائی دیتا ہے۔‘ دفتر خارجہ کے مطابق ’اس قانون سازی میں پاکستان کا ذکر اور حوالہ مکمل طور پر بلا جواز ہے۔ ہم اس طرح کے حوالوں کو افغانستان کے معاملے میں سنہ 2001 سے جاری پاکستان اور امریکہ کے تعاون کی روح کے منافی سمجھتے ہیں جس میں افغان امن عمل اور حالیہ عرصے میں افغانستان سے امریکیوں اور دیگر ملکوں کے شہریوں کے اںخلا میں تعاون بھی شامل رہا۔

 بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پاکستان ہمیشہ سے سمجھتا رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اسی طرح دباؤ کی پالیسی سے کام نہیں ہوگا اور افغانستان میں دیرپا اور مستقبل امن کے لیے بات چیت اور رابطے رکھنا ہی واحد راستہ ہے۔

 دفتر خارجہ نے کہا کہ خطے میں مستقبل میں کسی ممکنہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مستقل سکیورٹی تعاون کی اہمیت ہے۔ اس لیے اس طرح کی مجوزہ قانون سازی نامناسب، بلاجواز اور نقصان دہ ہوگی۔‘