افغانستان میں بدامنی۔ قطرمیں امن کی تلاش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-08-2021
افغانستان کے حالات بد سے بدتر
افغانستان کے حالات بد سے بدتر

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

جب قطر کے دوحہ میں کل دنیا کی بڑی طاقتیں افغانستان کے حالات پر سر جوڑ کر بیٹھی تھیں اور جس وقت افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی حکومت جو افغانستان میں طاقت کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے، اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔اس وقت طالبان افغانستان میں اپنے قبضہ والے علاقوں میں پرانی روش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکولوں کو آگ لگا رہے تھے،خواتین پر جبر کررہے تھے اور لوگوں کو سرعام پھانسی پر لٹکا رہے تھے۔ کوئی امید نظر نہیں آتی ۔

 حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ افغان طالبان نے ملک کے آٹھویں صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرلیا ہے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود زلمے خلیل زاد نے طالبان کو یہ بتایا ہے کہ میدان جنگ میں فتح حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دوسری جانب زلمے خلیل زاد اور دیگر امید کرتے ہیں کہ طالبان رہنماؤں کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات پر واپس آنے پر آمادہ کرلیا جائے گا۔

 دنیا دیکھ رہی ہے کہ افغانستان مہذب طاقت یا نظام کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے اور کوئی کچھ کرنے سے قاصر ہے۔یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہونے جارہا ہے۔ طالبان نے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ملک کے 34 میں سے آٹھ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے ، جن میں صوبہ قندوز کا دارالحکومت قندوز بھی شامل ہے، جو ملک کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔

 اتوار کو طالبان نے شہر کے مرکزی چوک پر اپنا پرچم لگایا، لیکن ہوائی اڈے اور شہر کے مضافات میں ایک فوجی اڈے پر ابھی بھی حکومتی فورسز کا کنٹرول ہے۔

 طالبان اب دیگر علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حکومتی فورسز سے لڑ رہے ہیں اور انہوں نے صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا ہے۔

 ایک رکن پارلیمنٹ اور ایک فوجی افسر نے بتایا کہ طالبان نے منگل کو صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری پر قبضہ کر لیا ہے۔ قانون ساز ممبر احمد زئی نے کہا: ’تقریباً دو گھنٹے کی لڑائی کے بعد سکیورٹی فورسز پر قابو پالیا گیا اور وہ پیچھے ہٹ گئیں۔‘

 منگل کو ہی دن کے اختتام پر طالبان جنگجو صوبہ فراہ میں بھی داخل ہوئے اور انہیں صوبائی گورنر کے دفتر کے سامنے دیکھا گیا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹ کی کہ انہوں نے فراہ شہر پر قبضہ کر لیا ہے، لیکن اس علاقے سے تعلق رکھنے والے قانون دان عبدالناصر فراہی، جو کابل میں ہیں، نے کہا کہ انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ اور ایک فوجی اڈے کا کنٹرول اب بھی حکومت کے پاس برقرار ہے۔

 اس طرح منگل کو طالبان دو جبکہ جمعے سے لے کر اب تک آٹھ صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔

۔ 20 سالہ مغربی فوجی مشن اور افغان فورسز کی تربیت پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود بہت سے لوگ اس بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ افغان افواج کیوں پست ہوچکی ہیں۔ یہ لڑائی بڑی حد تک ایلیٹ فورسز اور افغان فضائیہ کے چھوٹے گروہوں کے پاس آچکی ہے۔

 طالبان کی کامیابی نے طویل عرصے سے تعطل کے شکار مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت میں اضافہ کیا ہے، جو کہ شورش ختم کرکے افغانستان کو ایک جامع عبوری انتظامیہ کی طرف لے جا سکتے ہیں، تاہم طالبان نے اب تک مذاکرات کی میز پر واپس آنے سے انکار کیا ہے۔

 امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق قطر میں زلمے خلیل زاد کے مشن کا مقصد 'افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر مشترکہ بین الاقوامی ردعمل وضع کرنے میں مدد کرنا ہے۔

'  امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ وہ 'طالبان پر دباؤ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنی فوجی کارروائی بند کریں اور ایک سیاسی تصفیے کے لیے مذاکرات کریں جو افغانستان میں استحکام اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔'  دوسری جانب طالبان کے فوجی سربراہ نے منگل کے روز اپنے جنگجوؤں کے لیے ایک آڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انہیں حکم دیا گیا کہ وہ افغان فورسز اور سرکاری افسران کو ان علاقوں میں نقصان نہ پہنچائیں جو وہ فتح کرتے ہیں۔ دوحہ میں طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے یہ ریکارڈنگ ٹوئٹر پر شیئر کی۔

 تقریباً پانچ منٹ کی اس آڈیو میں، طالبان کے مرحوم رہنما ملا محمد عمر کے بیٹے محمد یعقوب نے باغیوں سے کہا کہ وہ فرار ہونے والے حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں کے چھوڑے گئے گھروں سے باہر رہیں، بازاروں کو کھلا چھوڑ دیں اور بینکوں سمیت کاروبار کی جگہوں کی حفاظت کریں۔

 یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ آیا طالبان جنگجو ملا یعقوب کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ طالبان کی پیش قدمی کے نتیجے میں فرار ہونے والے کچھ شہریوں نےبتایا ہے کہ طالبان نے خواتین پر جابرانہ پابندیاں عائد کیں اور سکولوں کو جلا دیا۔

 دوسری جانب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کے دفتر نے کہا ہے کہ انہیں سزائے موت، فوجی استعمال اور طالبان کے قبضے والے علاقوں میں گھروں، سکولوں اور کلینکوں کی تباہی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔