یوکرین بحران: کیوں اور کیسے متاثر کررہا ہے عالم اسلام میں رمضان کو

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-04-2022
یوکرین بحران:  کیوں اور کیسے متاثر کررہا ہے عالم اسلام میں رمضان کو
یوکرین بحران: کیوں اور کیسے متاثر کررہا ہے عالم اسلام میں رمضان کو

 

 

آواز دی وائس : روس کے حملے نے یوکرین کو تو تباہی سے دوچار کیا ہی ہے، لیکن اس جنگ نے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک کی معاشی مشکلات بھی بڑھادی ہیں، جہاں ماہ رمضان کی آمد سے قبل لوگ بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ فلسطین اور لبنان سے لے کر تیونس اور صومالیہ تک مسلمان ماہ رمضان کی آمد سے قبل پریشان ہیں کیونکہ ان کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے۔

ابتک مشرق وسطی میں یمن ،شام ،عراق اور لبنان میں شورش کے سبب عبادت کے مہینے پر گہرا اثر پڑتا تھا لیکن اس بار یوکرین کی جنگ نے مشرق وسطی کے ممالک پر زبردست مہنگائی کا سایہ ڈال دیا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے نے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

 یوکرین کے بحران نے تقریبا ہلچل پیدا کردی ہے کیونکہ عبادت کے ماہ میں سحری سے روزے تک کھانے اور خاندانی تقریبات پر بڑے اجتماعات ایک روایت رہے ہیں۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد، تاہم، مشرق وسطیٰ کے لاکھوں لوگ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اب اناج اور خوراک کی دیگر اشیا کہاں سے آئیں گی۔

 آسمان چھوتی قیمتیں لوگوں کو متاثر کر رہی ہیں جن کی زندگیاں پہلے ہی لبنان، عراق اور شام سے لے کر سوڈان اور یمن تک تنازعات، نقل مکانی اور غربت کی وجہ سے پریشان تھیں۔

 گندم اور جو کی عالمی برآمدات کا ایک تہائی حصہ یوکرائن اور روس کا ہے، جس پر مشرق وسطیٰ کے ممالک ان لاکھوں لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے انحصار کرتے ہیں جو سبسڈی والی روٹی اور سودا نوڈلز پر گزارہ کرتے ہیں۔

 وہ دوسرے اناج اور کھانے کے تیل کے برآمد کنندگان بھی ہیں جو کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مصر، دنیا کا سب سے بڑا گندم درآمد کرنے والا ملک، حالیہ برسوں میں اپنی زیادہ تر گندم روس اور یوکرین سے حاصل کرتا ہے۔ ملک کی کرنسی نے بھی حالیہ دنوں میں ایک غوطہ لگایا ہے، جس سے قیمتوں میں اضافے کے دیگر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

فلسطینیوں کی پریشانی 

 اسرائیلی ناکہ بندی کے شکار غزہ کی پٹی کی ایک رہائشی صباح فتوم نے کہا: ’اشیا کی زیادہ قیمتیں رمضان کی روح کو متاثر اور خراب کرتی ہیں۔‘ فلسطینی حکام کے مطابق اشیائے ضروریات کی قیمتیں 11 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔ 45 سالہ صباح نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم نے سنا ہے کہ قیمتیں اور بھی بڑھ جائیں گی۔

یہ لوگوں کے لیے ایک بوجھ ہے روس اور یوکرین دنیا میں وسیع پیمانے پر اناج اگانے والے ممالک ہیں اور گندم، سبزیوں کے تیل اور مکئی جیسی کئی اہم اشیا کی برآمدات میں ان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ تاہم روس کے حملے اور بین الاقوامی پابندیوں کے نتیجے میں برآمدات کے بہاؤ میں رکاوٹ نے عالمی سطح پر بحران کے خدشات کو جنم دیا ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں، جو پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔

غزہ کی پٹی میں ایک دکان چلانے والے حازم السقا نے کے مطابق ’درآمد شدہ مصنوعات کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور وہ غیر معمولی طور پر مہنگی ہوگئی ہیں۔ تیل چار شیکل (ایک ڈالر) سے بڑھ کر سات شیکل (دو ڈالر) ہو گیا ہے اور اس اضافے کا اثر خریداری اور ڈیمانڈ پر پڑتا ہے۔

غزہ کے ایک رہائشی زاید خضر کہتے ہیں کہ لوگوں کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بڑی مصیبت ہے۔ آپ بازار دیکھیں لوگ بازار جاتے ہیں اور وہ کچھ نہیں خریدتے۔ سبزیوں کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔

زاید نے مزید کہاکہ ’دنیا میں ہونے والی کوئی بھی جنگ غزہ کی پٹی کو خاص طور پر متاثر کرتی ہے کیونکہ غزہ کی پٹی یورپی ممالک اور عطیہ دہندگان ممالک سے آنے والی امداد پر انحصار کرتی ہے، لیکن آج ان یورپی ممالک نے اپنی تمام تر امداد یوکرین اور وہاں کے بے گھر افراد پر مرکوز کر رکھی ہے اور اس کا اثر ہم پر پڑا ہے۔ آٹے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سب ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

معاشی تجزیہ کار رائد حلس اس ساری صورت حال پر کہتے ہیں کہ ’غزہ کی پٹی کے 80 فیصد شہری امدادی ریلیف پر انحصار کرتے ہیں۔ لوگوں کو اضافی بوجھ کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ اس سال اپنی رمضان کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔ یوکرین میں جنگ نے عرب دنیا کے سب سے غریب ملک یمن کو بھی شدید متاثر کیا ہے، جو 2014 کے بعد سے ہی شورش کا شکار ہے۔

یمن میں ہاہاکار 

رمضان المبارک کی آمد سے قبل یمن کے لیے سب سے بڑی خبر یہی تھی کہ سعودی عرب نے دوماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا ،مگر  اب یمن کے سامنے اناج اور دیگر خوراکی اشیا کا مسئلہ ہے۔ یوکرین یمن کی گندم کی درآمدات کا تقریباً ایک تہائی سپلائی کرتا ہے اور اس جنگ نے یمن میں قحط کے خطرات بڑھا دیے ہیں۔ یمنی دارالحکومت صنعا کے ایک رہائشی محسن صالح کا کہنا تھا کہ ہر سال ہی رمضان سے پہلے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، ’لیکن اس سال ان میں دیوانہ وار اضافہ ہوا ہے، لوگ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ 43 سالہ محسن صالح نے بتایا کہ ’معاشی صورت حال بہت مشکل ہے۔ یمن میں زیادہ تر لوگ غریب اور تھکے ہوئے ہیں۔‘ 2011 سے جنگ اور شورش کے شکار ملک شام میں بھی یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد سے کوکنگ آئل کی قیمت دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور اسے محدود مقدار میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

شام میں بھی بحران

جنگ اور خانہ جنگی کے سبب چور چور شام  اب اس بحران کا شکار ہے۔ یوکرین کی جنگ کے سبب ایک نئے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دمشق کی رہائشی 62 سالہ بسمہ شعبانی نے گذشتہ برس کووڈ 19 کے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا: ’میں نے سوچا تھا کہ صرف گذشتہ رمضان میں ہی ہم کم خرچ کریں گے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس سال ہم اپنے دسترخوان سے اور بھی ڈشز کم کردیں گے۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’ہم اب اپنے دسترخوان پر ایک سے زیادہ ڈش برداشت نہیں کرسکتے اور مجھے خدشہ ہے کہ مستقبل میں یہ ایک ڈش بھی ہماری دسترس سے باہر ہو جائے گی۔

تیونس میں بھی بے چینی 

افریقی ملک تیونس میں بھی رمضان کی روایات نبھانا مشکل نظر آرہا ہے۔ ماہ رمضان میں خوراک کے عطیات ایک عام رواج ہے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ​​عطیہ کرنے والے خود اپنے لیے ہی بنیادی ضروریات حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ طالب علم رضاکار محمد ملک برسوں سے رمضان خوراک کے عطیات جمع کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ’ہماری خوراک کا عطیہ کرنے والی ٹوکری عام طور پر ایک گھنٹے میں بھر جاتی ہے لیکن اس سال ایسا نہیں ہے۔ کچھ لوگ ہمیں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پہلے اپنے لیے کھانا تلاش کرنے دیں۔