اویغور مسلمانوں پر مظالم: یورپی یونین کی چین پر پابندی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-03-2021
 اویغور مسلمانوں پر مظالم  کا معاملہ
اویغور مسلمانوں پر مظالم کا معاملہ

 

 

 برسلز

چین پوری دنیا میں اویغور مسلمانوں پر مظالم کی وجہ سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید کے نشانے پر رہتا ہے۔ یوں تو چین کو اس حوالے سے بین الاقوامی فورموں پر متعدد مقدمات اور عوامی ردعمل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، لیکن اس بار عملی طور پر ایک قدرے ٹھوس قدم ترقی یافتہ ممالک کے سب سے بڑے گر وه یورپی یونین کی جانب سے اٹھایا گیا ہے ۔

یورپی یونین نے اویغور مسلمانوں پر بلا جواز کریک ڈاؤن کرنے کی پاداش میں چار چینی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ مغربی میڈیا کے مطابق یورپی یونین نے 1989 کے بعد پہلی مرتبہ چین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس سے قبل یورپی یونین نے 1989 میں تیانمن سکوائر پر مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد چین پر اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی تھی۔

یورپی یونین نے صوبہ سنکیانگ میں تعینات چار عہدیداروں پر پابندی عائد کی ہے۔ دوسری جانب چین نے یورپی یونین کی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے دس یورپی اداروں اور ارکان پارلیمان کے چین میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان میں پانچ یورپی پارلیمان کے اراکین ہیں جبکہ چار یورپی اداروں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے مطابق یورپی یونین کا یہ اقدام چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے اور چین کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کے لیے نقصان دہ ہے۔ یورپی یونین کو چین کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے پر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ دونوں حریف ہونے کے علاوہ معاشی شعبوں میں پارٹنرز بھی ہیں۔

یورپی یونین نے گزشتہ سال چین کے ساتھ سرمایہ کاری کے ایک بڑے معاہدے پر دستخط کیے تھے، لیکن نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے یورپی یونین کو چین کے خلاف متحدہ فرنٹ قائم کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔ یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں میانمار میں فوجی اقتدار اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر بھی غور کیا گیا ۔