جان بچی تو لاکھوں پائے۔۔ ٹرمپ بری ہوگئے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-02-2021
 سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے سیاسی حریف موجودہ صدر بائیڈن
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے سیاسی حریف موجودہ صدر بائیڈن

 

امریکی سینیٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی مسترد کرتے ہوئے انہیں الزام سے بری کر دیا گیا ہے۔ایک بڑی خبر ٹرمپ کے چاہنے والوں کےلئے ہے۔

امریکی سینیٹ کے 57 اراکین نے ٹرمپ کو مجرم قرار دینے کے حق میں اور 43 نے مخالفت میں ووٹ دیا، 7 ری پبلکن اراکین نے بھی سزا کے حق میں ووٹ دیے لیکن ٹرمپ کو مجرم ثابت کرنے کےلئے سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار تھی۔

ڈیمو کریٹس کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ پر 6 جنوری کو اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ حملے پر اکسانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔یاد رہے کہ 100 نشستوں پر مشتمل سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے 50-50 ارکان ہیں۔ صدر کے مواخذے یا انہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے ایوان کے دو تہائی ارکان کی حمایت یعنی 67 ووٹوں کی ضرورت تھی۔

ڈیمو کریٹ پراسیکیوشن ٹیم کا کہنا تھا کہ سابق صدر ٹرمپ نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کےلئے اپنے حامیوں کو اکسایا تھا جس کے بعد ہجوم نے کانگریس کی عمارت پر حملہ کیا، حملہ آوروں نے عمارت کی کھڑکیوں کو توڑا، افسران کو یرغمال بنایا اور محافظوں سے ہاتھا پائی کی۔جبکہ سابق صدر کے وکلاء کا مؤقف تھا کہ کیپٹل ہل پر حملے کی ذمہ داری ٹرمپ پر عائد نہیں کی جا سکتی۔

وکلاء کے مطابق سابق صدر کو 6 جنوری کے واقعات کے لیے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد موردِ الزام ٹھہرانا غیر قانونی ہے، مواخذے کی کارروائی سیاسی مقاصد کے لیے کی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ سابق صدر 20 جنوری کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے اس لئے مواخذے کی کارروائی کو انہیں عہدےسے ہٹانے کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ڈیموکریٹس کو امید تھی کہ وہ دارلحکومت کے پُر تشدد گھیراؤ کا ذمہ دار ٹھہرانے پر انہیں سزا دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے وہ دوبارہ سرکاری عہدے پر نہیں آسکیں گے۔

سابق امریکی صدر نے اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس کے فوراً بعد ان کے حامیوں نے 6 جنوری کو امریکی دارالحکومت کے کیپٹل ہل پر چڑھائی کردی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اٹارنی نے موقف اپنایا کہ ریلی میں دئیے گئے ان کے بیان کو آئین کے تحت آزادی اظہار رائے کا تحفظ حاصل ہے اور انہیں اس کارروائی میں مناسب طریقہ کار نہیں دیا گیا۔سابق امریکی صدر کے خلاف ان کی اپنی جماعت کے جن سینیٹرز نے ووٹ دئیے ان میں رچرڈ بُر، بِل کیسیڈی، سوسان کولِنز، بین ساسے، پیٹ ٹومی اور لیزا مرکوسکی شامل ہیں۔

اس سے قبل ریپبلکنز اراکین سینیٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو 5 فروری 2020 کو مواخذے سے بچایا تھا اوراس وقت ان کی جماعت کے صرف ایک سینیٹر مِٹ رومنی نے ان کی سزا اور عہدے سے ہٹانے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

سینیٹ کے اکثریتی رہنما مِچ میک کونیل نے سزا کے خلاف ووٹ دیا لیکن ان فیصلہ آنے کے بعدسابق صدر کے خلاف سخت تنقیدی بیان بھی دیا۔انہوں نے کہا کہ 'اس روز جو واقعہ ہوا اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے عملی اور اخلاقی طور پر ذمہ دار ہونے میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، وہ افراد جنہوں نے عمارت پر دھاوا بولا وہ سمجھتے تھے وہ یہ سب اپنے صدر کی خواہش اور ہدایت پر کررہے ہیں'۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ وہ تیسرے امریکی صدر ہیں جن کا امریکی ایوان نمائندگان نے مواخذہ کیا جبکہ وہ پہلے صدر ہیں جن کے خلاف دوسری مرتبہ مواخذے کی کارروائی ہوئی اور جنہوں نے عہدہ صدارت چھوڑنے کے بعد بھی اس کارروائی کا سامنا کیا۔