داعش سے جنگ کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ۔طالبان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-10-2021
کون سیر کون سوا سیر ؟
کون سیر کون سوا سیر ؟

 

 

کابل : طالبان نے افغانستان میں شدت پسندوں گروپوں پر قابو پانے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ اس طرح اگست میں امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان نے امریکہ کے ساتھ پہلے براہ راست مذاکرات سے پہلے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے کہ بنیادی مسئلے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

سینیئر طالبان اور امریکی حکام کے درمیان ہفتے اور اتوار کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بات چیت ہو رہی ہے۔ فریقین کے حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند گروہوں پر قابو پانا اور غیرملکی شہریوں کو افغانستان سے نکالنا مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ طالبان غیر ملکیوں کے افغانستان سے روانگی کے معاملے پر لچک کا دکھانے کا اشارہ دے چکے ہیں۔

طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے  بتایا کہ ’افغانستان میں داعش خراسان کے مسلسل فعال ہونے کے بعد واشنگٹن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہو گا۔‘ داعش نے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں شیعہ برادری کی مسجد میں حالیہ خودکش بم دھماکہ بھی شامل ہے جس میں 46 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ داعش خراسان کے خلاف کارروائی میں امریکہ کے ساتھ تعاون کے بارے میں سوال پرسہیل شاہین کا کا کہنا تھا کہ ہم آزادانہ طور پر داعش سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

2014 میں مشرقی افغانستان میں منظر عام پر آنے کے بعد داعش نے افغانستان کی شیعہ آبادی کو مسلسل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ داعش کو امریکہ کے خلاف بڑے خطرے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ 20 سالہ جنگ ختم کرتے ہوئے اگست کے آخر میں امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بعد اختتام ہفتہ پر امریکہ اور طالبان کے درمیان پہلی بار بات چیت ہو رہی ہے۔ امریکہ واضح کر چکا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات انہیں تسلیم کرنے کے عمل کا آغاز نہیں ہیں۔

امریکہ میں قائم ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین کا کہنا ہے کہ ’جمعے کا حملہ مزید تشدد کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر اویغور عسکریت پسندوں کا تعلق مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک کے ساتھ ہے۔ اس تحریک کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ دہائیوں سے محفوظ ٹھکانہ حاصل ہے۔‘ جمعے کے حملے کے بعد اپنی ٹویٹ میں کگلمین کا کہنا تھا کہ’اگر داعش کا دعویٰ درست ہے تو افغانستان میں دہشت گردی سے متعلق چین کے خدشات جنہیں طالبان تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، میں اضافہ ہو گا۔‘