افغانی سکھ تذبذب کا شکار: ملک کو چھوڑیں یا رہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
افغانی سکھ تذبذب کا شکار: ملک کو چھوڑیں یا رہیں
افغانی سکھ تذبذب کا شکار: ملک کو چھوڑیں یا رہیں

 

 

افغانستان میں 1970 کی دہائی میں سکھوں کی آبادی ایک لاکھ ہوا کرتی تھی لیکن کئی سالوں سے جاری جنگ، بھوک و افلاس اور عدم برداشت نے تقریباً سب کو جلا وطنی میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔

کابل میں واقع سکھوں کے آخری گردوارے کے نگران گرنام سنگھ نے بتایا ہے کہ ’افغانستان ہمارا ملک ہے، ہمارا وطن ہے لیکن ہم نا امیدی کی وجہ سے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘.

انہوں نے کہا کہ کبھی ایسا بھی وقت تھا جب اس گردوارے کے ہالز عبادت گزاروں سے بھرے پڑے ہوتے تھے لیکن اب ان کی تعداد میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔

گرنام سنگھ کے اندازے کے مطابق ایک لاکھ کی آبادی میں سے صرف 140 سکھ باقی رہ گئے ہیں جن میں سے زیادہ تر جلال آباد شہر یا کابل میں رہائش پذیر ہیں۔

سوویت یونین کے قبضے، طالبان کی حکومت اور امریکی مداخلت جیسے مختلف پرتشدد ادوار میں سکھوں کی آبادی بتدریج کم ہوتے ہوتے گزشتہ سال 240 تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ تعداد مزید کم ہو کر 140 رہ گئی ہے۔کابل کے علاقے کارت پروان میں واقع گردوارہ عبادت گزاروں کے لیے کھلا ہوا ہے جہاں وہ مل بیٹھ کر اپنی مقدس کتاب گرو گرنتھ پڑھتے ہیں۔ اس گردوارے میں گرو گرنتھ کی تین کاپیاں ہوتی تھیں لیکن نومبر میں دو کاپیاں دہلی بھجوا دی گئیں تاکہ انہیں محفوظ رکھا جا سکے۔

بہت عرصے سے سکھوں کو افغانستان میں امتیازی سلوک کا سامنا تو تھا ہی لیکن اب داعش اور دیگر جہادی گروہ ایک حقیقی خطرہ بن کر سامنے آئے ہیں۔

افغانستان سے جھوڑ جانے والے اکثر سکھوں نے انڈیا میں پناہ لی ہے۔ طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد انڈیا نے جلا وطن ہونے والے سکھوں کو ترجیحی بنیاد پر ویزے کی پیشکش کی تھی اور انہیں طویل عرصے کے لیے رہائش پذیر ہونے کا موقع بھی فراہم کیا تھا تاہم شہریت کی آفر نہیں کی گئی۔

فارمیسی کے شعبے سے منسلک چالیس سالہ منجیت سنگھ نے انڈیا کی یہ پیشکش مسترد کر دی تھی۔ منجیت کا کہنا ہے کہ وہ انڈیا جا کر کیا کریں گے، نہ کوئی نوکری ہے اور نہ ہی گھر۔

سکھ برادری کے رکن منموہن سنگھ نے بتایا کہ 60 سال پہلے جب یہ گردوارہ تعمیر ہوا تو یہ پورا علاقہ سکھوں سے بھرا ہوا تھا۔ ’ہمارے غم اور خوشیاں سانجھی تھیں۔‘ کارت پروان کی اس گلی میں داخل گردوارے کی عمارت دور سے دکھائی دیتی ہے اور سکیورٹی کے بھی خاص انتظامات کیے گئے ہیں۔ چیکنگ کے بغیر کسی کو گردوارے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن گزشتہ چند سالوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات نے سکھ برادری کو خوفزہ کر دیا ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر کے شروع میں نامعلوم مسلح افراد نے گردوارے میں گھس کر توڑ پوڑ کی تھی۔ کابل کے علاقے شور بازار میں واقع گردوارہ ہر رائی صاحب پر مارچ 2020 میں داعش نے حملہ کیا تھا جس میں سکھ برادری کے 25 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے اس گردوارے سمیت قریب میں واقع 500 سالہ پرانا تاریخی دھرم شالہ گردوارہ بھی عبادت گزاروں کے لیے بند پڑا ہے۔