طالبان تمام افغان فریقوں کو قومی مفاہمت میں شامل کریں: قطر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-09-2021
 طالبان  کے ایک عہدیدار نے اتوار کویہ تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی (تصویر: عبدالرزاق حبیبی ٹوئٹر اکاؤنٹ)
طالبان کے ایک عہدیدار نے اتوار کویہ تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی (تصویر: عبدالرزاق حبیبی ٹوئٹر اکاؤنٹ)

 

 

دوحہ: افغانستان میں حکومت سازی سے قبل الگ الگ کھچڑی پک رہی ہے ،طالبان ملک پر قبضہ کے باوجود بہت سے معاملات میں پریشان ہی ہیں۔ دنیا کو ان کی نیت پر یقین نہیں ہے۔جبکہ طالبان بھی بڑے فیصلوں میں ہچکچا رہے ہیں جن سے اس بات کا ثبوت مل سکتا ہے کہ ان کے مزاج میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔

 طالبان کی افغانستان میں واپسی کے عمل میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے ملک قطر نے بھی اب سفارت کاری میں تیزی پیدا کردی ہے ۔اب سوشل میڈیا پر خبر ملی ہے کہ قطر نے بھی طالبان کو کچھ اہم مشورے دئیے ہیں ۔

قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن نے اتوار کو افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کیے۔ وہ 15 اگست کے بعد سے کابل کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی اعلیٰ ترین عہدے دار ہیں۔

ایک طالبان عہدیدار نے ٹویٹ کیا کہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے نئی افغان حکومت کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی، تاہم انہوں نے ملاقات کی تفصیلات نہیں بتائیں

طالبان نے شیخ محمد کی اپنے نئے وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کی تصاویر جاری کی ہیں جبکہ مہمان وزیر کی سابق صدر حامد کرزئی کے ساتھ تصاویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

دوحہ میں قطر کے وزارت خارجہ نے بھی شیخ محمد کی نئی افغان حکومت کے علاوہ معزول حکومت کے سابق چیف امن مذاکرات کار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور کرزئی سے ملاقاتوں کی تصدیق کی ہے۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق شیخ محمد نے ’افغان حکام پر زور دیا کہ وہ تمام افغان فریقوں کو قومی مفاہمت میں شامل کریں۔

 بیان میں مزید کہا گیا کہ مذاکرات میں ’کابل ایئرپورٹ کے آپریشن اور سب کے لیے گزرنے اور سفر کی آزادی کو یقینی بنانے کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت شامل ہے۔‘

 وزارت نے کہا کہ ’دونوں فریقوں نے دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔

 قطر نے طویل عرصے تک افغانستان کے معاملے پر ثالث کا کردار ادا کیا ہے، جس میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کی میزبانی اور پھر سابق صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے پلیٹ فارم دینا شامل ہے۔

 وہ ان دسیوں ہزار افغانوں کی بھی مدد کر رہا ہے، جنہیں ملک پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان سے نکالا گیا اور اب دوسرے ملکوں میں بھیجا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ کسی بھی ملک نے ابھی تک طالبان کی نئی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کے پہلے دور حکومت (2001-1996) کو صرف تین ملکوں نے تسلیم کیا تھا۔