طالبان نے کابل پرقبضہ نہیں کیا، انھیں بلایا گیا: حامد کرزئی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 15-12-2021
 طالبان نے کابل پرقبضہ نہیں کیا، انھیں بلایا گیا: حامد کرزئی
طالبان نے کابل پرقبضہ نہیں کیا، انھیں بلایا گیا: حامد کرزئی

 


کابل:افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ طالبان نے افغانستان پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ان کو دعوت دی گئی تھی۔

ذرائع کے مطابق افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے پہلی بار کچھ ایسے شواہد کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کیسے افغان صدر اشرف غنی کی اچانک روانگی کے بعد شہر کو لوٹ مار سے بچانے کے لیے انہوں نے طالبان کو آنے کی دعوت دی۔

 حامد کرزئی نے کہا کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ اور دوحہ میں موجود طالبان قیادت اس حوالے سے ہونے والے معاہدے کا حصہ تھی۔

حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کے جاتے ہی دیگر حکام بھی ملک چھوڑ گئے تھے۔ حامد کرزئی کے مطابق جب انہوں نے وزیر دفاع بسم اللہ خان کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ حکام میں سے شہر میں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے وزیر داخلہ کو فون کیا، پولیس چیف کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی موجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ نہ کور کمانڈر تھے اور نہ کوئی یونٹ، سب جا چکے تھے۔

تیرہ سال تک ملک کے صدر رہنے والے حامد کرزئی نے نائن الیون کے بعد طالبان کو نکالے جانے کے بعد ملک چھوڑنے سے انکار کیا تھا۔ حامد کرزئی نے بتایا کہ 15 اگست کی صبح افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا ہے جس پر انہوں نے دوحہ فون کیا جہاں سے انہیں بتایا گیا کہ طالبان شہر کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ دوپہر کے وقت طالبان نے حکومت سے کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کا کہا کیونکہ ان کا شہر میں داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حامد کرزئی کے مطابق انہوں نے اور دوسرے لوگوں نے حکام سے بات کی اور ہم کو یقین دہانی کرائی گئی کہ امریکی اور حکومت اپنی جگہ پر مضبوط ہیں اور کابل پر قبضہ نہیں ہو گا۔حامد کرزئی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تقریباً پونے تین بجے جب یہ بات منظر عام پر آ گئی کہ صدر اشرف غنی ملک چھوڑ چکے ہیں تو انہوں نے حکام کو فون کالز کیں جن پر بتایا گیا کہ شہر میں سرکاری حکام موجود نہیں ہیں۔

ان کے بقول اشرف غنی کی ذاتی محافظ کی یونٹ کے سربراہ نے انہیں فون کیا کہ وہ محل آ جائیں اور صدارت سنبھالیں۔ جس پر حامد کرزئی نے انکار کرتے ہوئے کہا ’مجھے ایسا کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔‘ اس کے بجائے انہوں نے عوام کے نام پیغام اپنے بچوں کے ہمراہ جاری کیا تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم سب کابل میں موجود ہیں۔حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی کابل میں موجود رہتے تو اقتدار کی پرامن منتقلی ہو سکتی تھی۔ ’یقیناً یہ وہی کچھ تھا جس کے لیے ہم تیاری کر چکے تھے، ہمیں حالات کی بہتری کی امید تھی کیونکہ ہم نے اسی شام یا اگلی صبح دوحہ جانا تھا اور معاہدے کو حتمی شکل دینا تھی، اور مجھے یقین ہے طالبان قیادت بھی دوحہ میں اسی مقصد کے لیے ہماری منتظر تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ مستقبل کے افغانستان کے لیے ضروری ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں تعلیم کے مواقع ملیں، ان کو سیاست میں جگہ بنانا ہو گی، معاشی میدان، انتظامی امور اور سماجی طور پر بھی، یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔کرزئی کے مطابق جب تک ایسا نہیں ہو جاتا دنیا کو طالبان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہیے۔ افغانستان کو اچھے انتظامات کی ضرورت ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینی ہیں جبکہ صحت کی سہولتوں کو بھی بہتر بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں اور خواتین کا مرد کے بغیر باہر گھر سے باہر نہ نکل سکنے کی بات درست نہیں، گلیوں میں لڑکیاں اور خواتین دیکھی جا سکتی ہیں۔ جب ان سے طالبان کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا میں ان کو افغان کے طور پر ہی بیان کروں گا افغان 40 سال تک انتہائی مشکل حالات سے گزرے ہیں۔ ’ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن بین الاقوامی برادری نے بھی غلطیاں کیں، وقت آ گیا ہے کہ اس بات کا احساس کریں، اپنی غلطیوں پر نظر ڈالیں اور آگے کے لیے بہتری تلاش کریں۔‘