پوتن کے خلاف بیان ’اخلاقی غصہ‘ تھا۔ بائیڈن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-03-2022
پوتن کے خلاف بیان ’اخلاقی غصہ‘ تھا۔ بائیڈن
پوتن کے خلاف بیان ’اخلاقی غصہ‘ تھا۔ بائیڈن

 


واشنگٹن : امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ روس کے صدر ولادی میر پوتن کے حوالے سے دیے گئے اپنے بیان پر ’کوئی معذرت نہیں کریں گے‘ اور نہ ہی اپنے اس تبصرے سے ’پیچھے ہٹیں گے‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پوتن ’اقتدار میں نہیں رہ سکتے‘۔ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق صدر بائیڈن نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ وہ ماسکو میں حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کر رہے۔

جو بائیڈن نے کہاکہ’میں اس اخلاقی غم و غصے کا اظہار کر رہا تھا جو میں نے اس شخص (پوتن) کے بارے میں محسوس کیا تھا۔ میں پالیسی میں تبدیلی کا اظہار نہیں کر رہا تھا۔‘ امریکی صدر نے ہفتے کے روز پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں کی گئی ایک تقریر کے اختتام پر روسی صدر ولادی میر پوتن کے بارے میں یہ چونکا دینے والا تبصرہ کیا تھا، جسے امریکہ میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس نے مغربی یورپ میں کچھ اتحادیوں کو چونکا دیا تھا۔

صدر بائیڈن کے اس بیان پر وائٹ ہاؤس کو بھی وضاحت جاری کرنی پڑی تھی اور وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر عہدیدار نے زور دے کر کہا تھا کہ بائیڈن ’روس میں پوتن کے اقتدار یا حکومت کی تبدیلی پر بات نہیں کر رہے تھے۔‘ وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ صدر بائیڈن کے کہنے کا مقصد تھا کہ ’پوتن کو اپنے پڑوسیوں یا خطے پر طاقت استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے باضابطہ طور پر یہ تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ آیا پوتن کے بارے میں بائیڈن کا بیان ان کی پہلے سے لکھی گئی تقریر کا حصہ تھا۔ دوسری جانب کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بائیڈن کے بیان پر ردعمل میں کہا تھا کہ ’یہ امریکی صدر کا اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ روس میں کون اقتدار میں رہے گا۔‘

پیسکوف کا مزید کہنا تھا: ’صرف روسی عوام، جو اپنے رہنما کو ووٹ سے منتخب کرتے ہیں، اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور یقیناً امریکی صدر کو ایسے بیانات دینا زیب نہیں دیتا۔‘ تھنک ٹینک’کونسل برائے خارجہ تعلقات‘ کے صدر رچرڈ ہاس سمجھتے ہیں کہ جارحانہ امریکی بیان بازی سے ’ ولادی میر پوتن کو یہ احساس ہوسکتا ہے کہ سخت رویہ جاری رکھنے یا آگے بڑھنے کی صورت میں ان کا نقصان نہیں ہوگا۔

دوسری جانب صدر جو بائیڈن نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ ان کے تبصرے سے یوکرین جنگ میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے یا اس سے مغربی جارحیت کے بارے میں روسی پروپیگنڈے کو ہوا ملے گی۔ انہوں نے کہا: ’کوئی یقین نے کرے گا کہ میں ولادی میر پوتن کو ہٹانےکی بات کر رہا تھا، آخری کام جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ ہے زمینی جنگ یا روس کے ساتھ جوہری جنگ۔‘ جو بائیڈن نے مزید کہا کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی کے مقصد کی بجائے اپنی ’خواہش‘ کا اظہار کر رہے تھے

انہوں نے کہا: ’اس طرح کے لوگوں کو ممالک کا حکمران نہیں ہونا چاہیے لیکن وہ ہوتے ہیں، اگرحقیقت میں وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اس کے متعلق اپنے غم و غصے کا اظہار نہیں کر سکتا۔‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی جو بائیڈن کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اس میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فوجی کشیدگی اور بیان بازی کم کرنے ضرورت ہے۔‘ اگرچہ جو بائیڈن نے یوکرین پر حملہ شروع ہونے کے بعد سے یورپی اتحادیوں کے ساتھ امریکی اتحاد پر زور دیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے وارسا میں پوتن کو نشانہ بنا کر کچھ اضطراب پیدا کیا ہے۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے اتوار کے روز کہا: ’وہ ان الفاظ کا استعمال نہیں کروں گا کیونکہ میں صدر پوتن سے بات کرتا رہتا ہوں۔ ہم اجتماعی طور پر کیا چاہتے ہیں؟ ہم جنگ چھیڑے اور کسی کشیدگی کے بغیر یوکرین میں روس کی جانب سے شروع کی گئی جنگ کو روکنا چاہتے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو بھی اپنے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران جو بائیڈن کی تقریر کی وضاحت جاری کرنی پڑی۔ اس دورے میں ان کا ارادہ تھا کہ امریکی شراکت داری کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے کیونکہ انتظامیہ ایران کے ساتھ ایک نئے جوہری معاہدے کی خواہاں ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران اینٹنی بلنکن نے کہا کہ جو بائیڈن کا مطلب یہ ہے کہ ’ولادی میر پوتن کو یوکرین یا کسی اور کے خلاف جنگ لڑنے یا جارحیت کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔‘ اس سے قبل بھی جو بائیڈن، ولادی میر پوتن کے بارے میں بات کرتے ہوئے توقع سے کہیں زیادہ آگے چلے گئے تھے اور انہیں ’جنگی مجرم‘ قرار دے دیا تھا۔ اس وقت بھی وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ بائیڈن قانونی نتیجہ بیان کرنے کے بجائے ’دل سے بات کر رہے ہیں۔‘