افغانستان کا حال: طالبان نرم ۔ افغان گرم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-08-2021
طالبان کے خلاف بڑھتی مزاحمت
طالبان کے خلاف بڑھتی مزاحمت

 

 

کابل : طالبان کے افغانستان پر مکمل قبضہ کے بعد اب ایک نئی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ طالبان نرم ہیں اور افغان گرم نظر آرہے ہیں ۔ 

سڑکوں پر جلوں نکل رہے ہیں۔  خواتین بھی جلوس میں شانہ بشانہ شامل ہیں۔

افغان پرچموں کا سیلاب آگیا ہے۔ طالبان کے پرچم اتارے جارہے ہیں ۔

 کابل سے ہرات اور قندھار سے خوست تک کہیں طالبان کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں تو کہیں نعرے گونج رہے ہیں۔

طالبان کے خلاف نعروں کی گونج ہے۔ جبکہ مسلح طالبان پر سکون ہیں۔ ان کی جانب سے ایک یا دو مقامات کے سوا کہیں سے بھی جارحانہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ 

 بات قومی پرچم کی بھی ہے۔ کیونکہ مختلف شہروں میں جہاں طالبان نے قومی پرچم اتار کر اپنے پرچم لہرائے تھے ،عوام نے انہیں اتار کر دوبارہ قومی پرچم لہرا دئیے ہیں۔

مگر حیرت انگیز طور پر طالبان کا رویہ نرم ہے۔ کہیں طاقت کا استعمال نہیں ہورہا ہے۔

بہرحال افغانستان کے شہر خوست میں طالبان انتظامیہ نے کرفیو نافذ کردیا، جس کے بعد سڑکوں پر سناٹا ہوگیا ہے۔

 طالبان حکام کا کہنا ہے کہ خوست میں ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ شہری آئندہ احکامات تک گھروں میں رہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ کرفیو کا مقصد شہر میں ہنگامہ آرائی کو روکنا ہے۔

 گزشتہ روز خوست میں بھی افغانستان کے قومی پرچم کے معاملے پر مظاہرے ہوئے تھے۔

 افغانستان کے شہر اسد آباد میں یومِ آزادی کی ریلی کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اسد آباد میں ریلی کے دوران قومی پرچم لہرانے پر طالبان کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔

 عینی شاہد کے مطابق واضح نہیں ہوا ہے کہ ہلاکتیں فائرنگ سے ہوئی ہیں یا بھگدڑ مچنے سے۔

طالبان کے ترجمان کی جانب سے اسد آباد میں پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے پر کوئی ردِ عمل ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے وہاں کے عوام فی الحال کشمکش میں ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ آنے والے کل میں کیا ہوگا، لیکن ساتھ ہی وہ طالبان سے یہ امیدیں بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ماضی کے تجربات دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔

طالبان کی آمد سے زندگی رک گئی

کابل میں مقیم ایک طالب علم پرویز خان اور ایک صحافی حکمت صافی سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ افغانستان کے اندر کیا حالات ہیں۔

صحافی حکمت صافی کا کہنا تھا کہ ’کل کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہونے جارہا ہے کیونکہ افغانستان کی سیاسی صورت حال ہمیشہ اسی طرح رہی ہے کہ کوئی حکومت مستحکم نہیں ہوسکی جبکہ گذشتہ دو برس میں جتنے بھی تجزیے تھے وہ غلط ثابت ہوگئے۔

لوگ سمجھ رہے تھے کہ افغان حکومت مستحکم ہو جائے گی اور یہاں زندگی رواں دواں ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑےگا، دنیا کے ساتھ چلنا پڑے گا، جدید طرز تعلیم پر توجہ دینی پڑے گی اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا پڑے گا۔ فی الحال تو انہوں نے خواتین کی تعلیم کی اجازت دی ہے لیکن اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کچھ روز کے بعد ہی معلوم ہوگا۔

دوسری جانب کابل میں مقیم طالب علم پرویز خان سمجھتے ہیں کہ طالبان کے آنے سے زندگی رک سی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا افغانستان میں زندگی روں دواں تھی۔ سکول، کالجز، ہسپتال، شاپنگ سینٹرز سب کھلے تھے۔

طالبان کے آنے کے بعد سے فی الحال زندگی ایسے جیسے رک سی گئی ہے۔ شہر میں بندوقیں لیے طالبان پھرتے ہیں ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ وزیر کون ہے، گورنر کون ہے، عوام کا نمائندہ کون ہے؟ 

جمہوریت ختم ہونے کے بعد طالبان کی اسلامی حکومت میں مجھ سمیت تمام لوگوں کو امید ہے کہ یہ عوام کو انصاف دیں گے۔‘

طالبان مخالف طاقتیں زور پکڑ رہی ہیں

دوسری جانب ماسکو میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ طالبان مخالف قوتیں کابل کے شمالی علاقے میں زور پکڑ رہی ہیں، طالبان کا پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں ہوا۔

 ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سرگئی لاروف نے کہا کہ پنچ شیر وادی میں طالبان مخالف قوتوں کے جمع ہونے کی اطلاعات ہیں۔

 سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ طالبان مخالف قوتوں کو امر اللّٰہ صالح اور احمد مسعود کی حمایت حاصل ہے۔

روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں جامع اور مشترکہ حکومت کے لیے فریقین مذاکرات کریں۔

 دوسری جانب افغانستان کی صورت حال پر پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے کئی گیٹ کھول دیے گئے ہیں، صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کابل میں امریکی فوجی موجود ہیں۔

 واشنگٹن میں افغان صورتحال پر پینٹاگون حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کابل میں امریکی فوج کے 5 ہزار 200 سے زائد اہلکار موجود ہیں، جبکہ کابل ایئرپورٹ کے کئی گیٹ اب کھول دیے گئےہیں۔

 پینٹاگون کا کہنا ہے کہ کابل سےاب تک 7 ہزار لوگوں کا انخلا کروایا جاچکا ہے۔