برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد میں ایک دہائی میں 44 فیصد اضافہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-11-2022
برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد میں ایک دہائی میں 44 فیصد اضافہ
برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد میں ایک دہائی میں 44 فیصد اضافہ

 

 

لندن:دفتر برائے قومی شماریات کی جانب سے جاری کردہ مردم شماری کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ کی مسلمانوں کی آبادی میں ایک دہائی کے دوران 44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی کل آبادی میں سے 6.5 فیصد یعنی 3.9 ملین لوگ اسلام کے ماننے والے ہیں۔ دریں اثنا، برطانیہ میں دوسرا سب سے عام نسلی گروہ اب "ایشیائی، ایشین برٹش یا ایشین ویلش" ہے، جو آبادی کا9.3 فیصد بنتا ہے۔

برطانیہ میں مردم شماری کے منگل کو جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق پہلی بار برطانیہ اور ویلز میں نصف سے بھی کم آبادی کو مسیحی کے طور پر شناخت کیا گیا ہے

اب 2021 کی مردم شماری سے پتا چلا ہے کہ برطانیہ کے تقریباً 10فیصد گھرانوں میں اب کم از کم دو مختلف نسلی گروہوں کے ارکان شامل ہیں، جو کہ 8.7 فیصد کا اضافہ ہے

برطانیہ اور ویلز میں دو کروڑ 75 لاکھ افراد یا 46.2 فیصد لوگوں نے اپنے آپ کو مسیحی کہا ہے۔2011 کے مقابلے میں پوائنٹس کے اعتبار سے اس میں 13.1 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ’کوئی مذہب نہیں‘ کا جواب 12 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ بڑھ کر 37.2 فیصد یا دو کروڑ 22 لاکھ ہو گیا ہے جبکہ مسلمان 39 لاکھ یا آبادی کا 6.5 فیصد ہیں۔ 4.9 فیصد کے پہلے کے تناسب کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بڑھی ہے۔ اگلا سب سے عام جواب ہندو تھا۔ (10 لاکھ اور سکھ پانچ لاکھ 24 ہزار) جب کہ بدھ مت کو ماننے والے لوگوں کی تعداد یہودیوں سے زیادہ ہو گئی ہے یعنی دو لاکھ 71 ہزار یہودیوں کے مقابلے میں بدھ مت کو ماننے والوں کی تعداد دو لاکھ 73 ہزار ہو گئی ہے