ایرانی جوہری پروگرام پر موثر اور سنجیدہ نقطہ نظر کی ضرورت: شہزادہ سلمان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-12-2021
ایرانی جوہری پروگرام پر موثر اور سنجیدہ نقطہ نظر کی ضرورت: شہزادہ سلمان
ایرانی جوہری پروگرام پر موثر اور سنجیدہ نقطہ نظر کی ضرورت: شہزادہ سلمان

 

 

ریاض :سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کے بیلسٹک اور جوہری پروگرام کے بارے میں ’موثر اور سنجیدہ‘ نقطہ نظر اپنانے پر زور دیا ہے۔

ریاض میں جاری خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے اجلاس میں منگل کو بات کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا: ’مملکت ایران کے جوہری اور میزائل پروگرام سے سنجیدگی اور موثر طریقے سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے، جو علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی اور استحکام کے حصول میں معاون ہو۔

شہزادہ محمد بن سلمان اس سمٹ میں سعودی عرب کی نمائندگی کر رہے ہیں، جس میں متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، عمان اور قطر کے سربراہاں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ 

ولی عہد نے کہا کہ خطے کو درپیش بہت سے مسائل کا تقاضہ ہے کہ باہمی انحصار اور سلامتی اور استحکام کو بڑھانے کے لیے کوششوں کو مزید مربوط کیا جائے۔ 

انہوں نے کہا ’ہم خادم حرمین شریفین (شاہ سلمان) کے وژن کے مطابق بقیہ اقدامات پر عمل درآمد کرنے، اقتصادی اتحاد کے عناصر کو مکمل کرنے اور مشترکہ دفاعی اور سلامتی کے نظام کی اہمیت پر اس طرح زور دیتے ہیں جو ہمارے سیاسی موقف کو متحد کرنے اور عالمی برادری کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینے کے ذریعے ہمارے علاقائی اور بین الاقوامی کردار کو بڑھاتا ہے۔

گذشتہ ماہ امریکہ اور جی سی سی ممالک نے ایران پر جوہری بحران پیدا کرنے اور بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے ایرانی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ ویانا میں مذاکرات کی بحالی سے پیدا ہونے والے ’سفارتی مواقع‘ سے فائدہ اٹھائیں، جس کا مقصد ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کو بچانا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے پابندیوں میں نرمی کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی معائنے کے لیے کھولنا تھا، تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو معاہدے سے نکال لیا تھا، جس کے نتیجے میں تہران نے اپنے وعدوں سے واپس جاتے ہوئے یورینیم کی افزودگی میں بھی معاہدے میں طے شدہ حد سے اضافہ کرنا شروع کیا تھا۔

صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے معاہدے میں واپسی کی رضا مندی ظاہر کی ہے اور ایران کا اصرار پابندیوں میں نرمی پر ہی رہا ہے، جس کے بعد مغربی طاقتیں معاہدے کو جاری رکھنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں ایران کے ساتھ مذاکرات کے کچھ ادوار بھی ہو چکے ہیں، مگر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔

 پانچ ماہ کے وقفے کے بعد ایک بار پھر مذاکرات 29 نومبر کو دوبارہ شروع ہوئے لیکن ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے سربراہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ویانا مذاکرات میں پیش رفت ’تشویش ناک ہے اور اس سے امید پیدا نہیں ہوتی

انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں سعودی عرب کی موجودگی سے’ ہمیں حل کے قریب رہنے کا موقع ملے گا کیونکہ ہم سبسے زیادہ خطرے میں پڑنے والے ممالک میں سے ایک ہیں۔

شہزادہ فیصل بن فرحان نے مزید کہا: ’ہم ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے فریقین کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور ہمیں اس کے بارے میں تفصیلات موصول ہوتی ہیں اور ان کی رائے امید افزا نہیں ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات میں ایران ایک سخت گیر پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے، جو تشویش ناک ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں گے اور ایک پائیدار اور مضبوط معاہدہ سامنے آئے گا، جس سے خطے میں بحران کو تم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔

جی سی سی کے سیکرٹری جنرل نایف الحجرف نے کہا کہ سربراہ اجلاس میں زور دیا گیا کہ لبنانی گروہ حزب اللہ پر ’اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے اور عرب ممالک کے استحکام کو خطرے میں ڈالنے والی دہشت گرد ملیشیا کی حمایت کرنے‘ کی پابندی لگائی جائے۔ حالیہ برسوں میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے خلیجی ریاستوں کے ساتھ لبنان کے تعلقات میں کشیدگی بڑھی ہے جبکہ یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے ڈرون اور میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے سرحد پار حملوں میں بار بار سعودی عرب کو نشانہ بنایا ہے۔

جی سی سی سربراہ اجلاس کے ایک حتمی اعلامیے میں ارکان نے ’ایک متحد اور موثر خارجہ پالیسی کے حصول کے لیے ہم آہنگی کی اہمیت پر اتفاق کیا، جو خلیجی عوام کے مفاد کا تحفظ کرتی ہو۔‘ انہوں نے اپنی معیشتوں کو ’متنوع‘ بنانے کی ضرورت پر بھی اتفاق کیا، جو تیل اور گیس پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔