ٹارگٹ کلنگ : افغانستان میں نیا خوف

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-08-2021
طالبان کے نشانہ پر
طالبان کے نشانہ پر

 

 

 طالبان کے کنٹرول والے علاقوں میں بڑھتے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے یہ خوف بڑھ رہا ہے کہ طالبان اپنے گذشتہ دور حکمرانی کو دہرا رہے ہیں۔

امریکی نیوز ایجنسی کے مطابق اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہزاروں لوگ افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہیں کابل ایئرپورٹ پر کئی روز سے لوگوں کا ہجوم دیکھا جا رہا ہے۔ جبکہ دیگر لوگ طالبان کے اقتدار پر قبضے کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گذشتہ دور کے مقابلے میں زیادہ متعدل رویہ رکھیں گے، امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنائیں گے اور سب کو معاف کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

جمعے کو طالبان نے مساجد کے اماموں سے اپیل کی کہ وہ لوگوں سے ملک نہ چھوڑنے کا کہیں اور متحد ہو جائیں۔ تاہم بہت سارے افغان شہریوں کو شک ہے کہ طالبان گذشتہ 20 برس میں حاصل ہونے والے فوائد کو ضائع کر دیں گے۔

جمعے کو سامنے آنے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ طالبان کے تبدیل ہونے کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس کے ریسرچرز نے غزنی صوبے میں عینی شاہدین سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ گذشتہ ماہ کے پہلے ہفتے میں طالبان نے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو قتل کیا۔

ان کہنا ہے کہ چھ افراد کو گولیاں ماری گئیں، جبکہ تین کو تشدد کرکے مار دیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ ایگنز کالامارڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ ہلاکتیں طالبان کے گذشتہ دور حکومت کی یاد دلاتی ہیں اور طالبان کے طرز حکومت کی جانب ایک خوفناک اشارہ ہے۔‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو سکے، کیونکہ طالبان نے زیر قبضہ علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی ہے۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈز نامی صحافتی تنظیم نے کہا ہے کہ جرمن نشریاتی ادارے کے صحافی کے خاندان کو قتل کرنا ایک خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ ہے۔

ڈوئچے ویلے کا کہنا ہے کہ طالبان نے ان کے رپورٹر کو ڈھونڈنے کے لیے گھر گھر جا کر تلاشی لی جو پہلے ہی جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ طالبان نے اس کے تین اور صحافیوں کی تلاش میں ان کے گھروں پر چھاپے مارے۔ 

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈز کے جرمن سیکشن کی کاتجا گلوجر کا کہنا تھا کہ ’افسوس، یہ سب ہمارے برے خدشات کی تصدیق کرتا ہے۔ طالبان کی ظالمانہ کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ افغانستان میں میڈیا ورکرز کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں۔