طالبان: خواتین کے حقوق پر فرمان- ملازمت اورتعلیم پرخاموشی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-12-2021
'طالبان: خواتین کے حقوق پر فرمان میں ملازمت اورتعلیم پر'خاموشی
'طالبان: خواتین کے حقوق پر فرمان میں ملازمت اورتعلیم پر'خاموشی

 

 

کابل : افغانستان میں طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ نے خواتین کے حقوق سے متعلق ایک خصوصی فرمان جاری کیا ہے جس میں شادی، بیوہ خواتین اور وراثت کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ تاہم اس حکم نامے میں خواتین کے ملازمت یا پڑھنے لکھنے کے بارے میں کوئی ذکر دنیا کی نظر اس پر ہے کہ طالبان خواتین کی آزادی کے تئیں کیا کرتا ہے۔ مگر ابتک ایسا نہیں لگتا ہے کہ  طالبان کے مزاج میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ حاانکہ  دنیا نے اسی شرط پر امداد یا سہارا دینے کا وعدہ کیا ہے کہ خواتین کے حقوق دئیے جائیں ۔

 یہی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور ملازمت کا کیا ہوگا؟ اس بارے میں طالبان نے ابتک کوئی واضح بیان نہیں  دیا ہے۔ صرف وعدے اور یقین دہائی کی جاتی رہی ہے۔

اب یہ بڑا فرمان بھی طالبان کا ارادہ ظاہر کررہا ہے۔تجزیہ کار مان رہے ہیں کہ یہ انتہائی مایوس کن حالات ہیں کیونکہ دنیا کی نظریں ملک اور حکومت پر ہیں ۔طالبان حکومت کے موقف اور پالیسی پر اس عالمی امداد کا دارومدار ہے جو افغان عوام کے لیے رحمت ثابت ہوگی جو اس وقت بدترین انسانی بحران سے گزر رہے ہیں ۔

طالبان کی جانب سے جمعہ کو جاری ہونے والے اس بیان کے مطابق ہبت اللہ اخوندزادہ نے تمام متعلقہ تنظیموں، علما کرام اور قبائلی عمائدین کو خواتین کے حقوق کے نفاذ کے لیے سنجیدہ اقدام کرنے کی ہدایت کی ہے۔

افغان طالبان نے 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکمرانی کے دوران سخت قوانین نافذ کیے تھے جن کے تحت نہ صرف خواتین کے لیے تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کر دیے گئے بلکہ ’فحاشی‘ کے الزام میں سنگسار بھی کیا جاتا تھا۔

اب جب طالبان رواں سال اگست میں دوبارہ اقتدار میں آئے تو متعدد شعبوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین خوف کا شکار ہیں اور ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہی ہیں، لیکن کچھ خواتین آج بھی افغانستان میں اپنی کوششیں جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

موجودہ افغان حکومت کو اپنے ملک میں خواتین کے حقوق خصوصا تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے بین الاقوامی شدید دباؤ اور تنقید کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے طالبان سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ نے اپنے فرمان میں وزارت حج و مذہبی امور، وزارت اطلاعات و ثقافت اور عدالت عظمیٰ کو بھی ہدایات جاری کی ہیں جبکہ بیان کے مطابق گورنرز اور ضلعی گورنرز اس فرمان کے نفاذ میں متعلقہ محکموں کے ساتھ تعاون کریں گے۔ طالبان سربراہ کے فرمان کے مطابق: نکاح/ شادی کے لیے بالغ خواتین کی رضامندی ضروری ہے۔ (اگرچہ، دونوں برابر ہونے چاہییں جن میں بغاوت کا کوئی خطرہ نہ ہو)۔

کوئی بھی خواتین کو زبردستی یا دباؤ ڈال کر شادی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔

عورت جائیداد نہیں بلکہ نیک اور آزاد انسان ہے۔ کوئی بھی اسے امن معاہدے یا دشمنی کو ختم کرنے کے بدلے کسی کو نہیں دے سکتا۔

شوہر کی وفات کے بعد شرعی عدت (چار ماہ اور دس راتیں) گزر جانے کے بعد، بشمول رشتے دار کوئی بھی بیوہ سے زبردستی شادی نہیں کر سکتا۔

بیوہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شادی کرے یا اپنے مستقبل کا تعین کرے/ منتخب کرے۔ (اگرچہ مساوات اور بغاوت کی روک تھام کے اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے)۔

بیوہ کا یہ شرعی حق ہے کہ وہ اپنے نئے شوہر سے ’مہر‘ کا مطالبہ کرے۔

 بیوہ کو اپنے شوہر، بچوں، باپ اور رشتہ داروں کی جائیداد میں وراثت کا حق اور مقررہ حصہ حاصل ہے اور کوئی بھی بیوہ کو اس کے حق سے محروم نہیں کر سکتا۔

زیادہ شادیوں والے (ایک سے زائد بیویاں) تمام عورتوں کو شرعی قانون کے مطابق حقوق دینے اور ان کے درمیان انصاف قائم رکھنے کے پابند ہیں۔

 طالبان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس فرمان نفاذ کے لیے متعلقہ تنظیموں ہدایت بھی جاری کی گئی ہیں۔ جاری ہدایات کے مطابق وزارت حج و مذہبی امور علما کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ وہ اپنے خطوط کے ذریعے لوگوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی دیں اور یہ تبلیغ کریں کہ خواتین پر ظلم کرنا اور انہیں ان کا حق نہ دینا اللہ کی ناراضگی، عذاب اور غصے کا سبب بنے گا۔ 

وزارت اطلاعات و ثقافت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ تحریری اور آڈیو میں اپنے ذرائع سے خواتین کے حقوق سے متعلق مضامین شائع کریں اور ساتھ ہی مصنفین اور کارکنوں کو خواتین کے حقوق سے متعلق مفید مضامین شائع کرنے کی ترغیب دیں تاکہ علما اور عوام کی خواتین کے شرعی حقوق کے بارے میں توجہ مبذول کرائی جا سکے، تاکہ جاری ظلم و ستم کو روکا جا سکے۔

 اس کے علاوہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ تمام عدالتوں کو لازمی ہدایت جاری کرے کہ وہ خواتین کے حقوق خصوصاً بیواؤں کے حقوق اور ان کے جبر کے لیے درخواستوں پر مناسب اور اصولی انداز میں غور کریں تاکہ خواتین کو ظلم سے نجات اور ان کے شرعی حقوق کے حصول سے محروم نہ کیا جا سکے۔گورنرز اور ضلعی گورنروں کو اس فرمان کے نفاذ میں نامزد وزارتوں اور سپریم کورٹ کے ساتھ جامع تعاون کرنا چاہیے۔