نائن الیون حملہ: قیدیوں پر تشدد کی امریکی سپریم کورٹ میں ہوگی سماعت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 06-10-2021
نائن الیون حملہ: قیدیوں پر تشدد  کی امریکی سپریم کورٹ میں ہوگی سماعت
نائن الیون حملہ: قیدیوں پر تشدد کی امریکی سپریم کورٹ میں ہوگی سماعت

 

 

نیویارک: امریکی سپریم کورٹ بدھ کو القاعدہ کے مشتبہ رکن ابو زبیدہ پر سی آئی اے کے تشدد کے حوالے سے ایک ایسے کیس کی سماعت کر رہی ہے، جس کے ذریعے حکومت کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کو خفیہ رکھنے کی خواہش کو چیلنج کیا گیا ہے۔

دو دہائیوں قبل القاعدہ سے تعلق رکھنے کے شبے میں ابو زبیدہ کو سی آئی اے نے پولینڈ کے ایک خفیہ مقام پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

ابو زبیدہ چاہتے ہیں کہ امریکی عدالت 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد حراست میں لیے گئے مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کے لیے ایجنسی کی وحشیانہ ’وار آن ٹیرر‘ مہم چلانے والے ان دو سی آئی اے ماہرین نفسیات کو ان کے مقدمے میں گواہی دینے پر مجبور کرے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے نے 2002 سے 2003 کے دوران انہیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

لیکن دوسری جانب سی آئی اے اور امریکی محکمہ انصاف قومی سلامتی سے متعلقہ معلومات کو افشا ہونے سے روکنے کے لیے ’ریاستی رازوں کے استحقاق‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے خلاف بحث کر رہے ہیں۔ 50 سالہ سعودی نژاد فلسطینی شہری ابو زبیدہ، جن کا اصل نام زین العابدین محمد حسین ہے، پر کبھی بھی کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔

انہیں پہلی بار 2002 میں پاکستان سے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا اور 2006 میں کیوبا کی بدنام زمانہ گوانتانامو بے جیل میں ڈالنے سے پہلے پوچھ گچھ کے لیے انہیں سی آئی اے کی کئی خفیہ جیلوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

وہ پہلے امریکی قیدی تھے، جنہیں نائن الیون کے حملوں کا سب سے بڑا منصوبہ ساز قرار دے کر واٹر بورڈنگ، جسم پر گولی مارنے اور دیگر سخت تکنیکوں کے ذریعے اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ابوزبیدہ کو مبینہ طور پر تھائی لینڈ، پولینڈ اور دیگر جگہوں پر سی آئی اے کے زیر انتظام خفیہ مقامات پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم گوانتانامو بھیجنے کے بعد سی آئی اے نے تسلیم کیا کہ وہ کبھی بھی القاعدہ کے رکن نہیں رہے اور نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی سے ان کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔

اس کے باوجود ابو زبیدہ کو گوانتاناموبے میں بغیر کسی الزام کے قید رکھا گیا۔ ان کی رہائی کو بار بار صرف اس لیے روکا گیا کیوں کہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ القاعدہ کے حامی ہیں، جنہیں اپنے کیے پر کوئی ندامت نہیں۔

سن 2010 میں انہوں نے پولینڈ کے خلاف مقدمہ دائر کیا تاکہ وہاں کی حکومت کو اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

اس کیس میں انہیں یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس کی حمایت حاصل ہے، جس کے لیے انہیں پولینڈ میں سی آئی اے کے خفیہ قیدخانے میں تشدد کا نشانہ بنانے کے اپنے دعوے کی تائید کے لیے دو ماہرین نفسیات جیمز مچل اور بروس جیسن کی گواہی پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب پولینڈ کے حکام کی جانب سے ملک میں سی آئی اے کے خفیہ قید خانے کے وجود کو تسلیم کیے جانے اور امریکی سینیٹ میں ابو زبیدہ کے خلاف تشدد کے دستاویزی شواہد پیش کیے جانے کے باوجود امریکی حکومت اور سی آئی اے ان ماہرین نفسیات کی گواہی کو روکنا چاہتی ہیں۔

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے واشنگٹن کے غیر ملکی انٹیلی جنس شراکت داروں کی شناخت اور کئی ملکوں میں سی آئی اے کے سابق حراستی مراکز کی نشاندہی سمیت کئی اہم ریاستی معلومات اور راز افشا ہونے سے قومی سلامتی کو بلاجواز نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امریکی عدالتیں عام طور پر حکومت کے (ریاستی رازداری کے) دعوؤں کو تسلیم کرتی ہیں لیکن ابو زبیدہ کے کیس کی حمایت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ تقریباً 20 سال بعد بہت سے راز اب راز نہیں رہے۔

امریکن سول لبرٹیز یونین سے وابستہ ڈیوڈ کول نے کہا: ’یہ بنیادی طور پر معلومات کو خفیہ رکھنے کی کوشش ہے، لیکن اب یہ بات اس لیے عجیب ہے کیوں کہ ہر کوئی یہ راز جانتا ہے۔‘