پاکستانی سوشل میڈیا پر نعرہ : کب جائے گا عمران ۔۔۔ چھوٹے گی جان ۔۔۔ بچے گا میرا پاکستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-03-2022
پاکستانی سوشل میڈیا پر نعرہ : کب جائے گا عمران ۔۔۔ چھوٹے گی جان ۔۔۔ بچے گا میرا پاکستان
پاکستانی سوشل میڈیا پر نعرہ : کب جائے گا عمران ۔۔۔ چھوٹے گی جان ۔۔۔ بچے گا میرا پاکستان

 

 

اسلام آباد : پاکستان میں ایک جانب او آئی سی کے اجلاس کا شور ہے تو دوسری جانب عمران خان حکومت پر آفتوں کا دور ہے۔ ایک ایسے وقت جب تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے عمران خان کی حکومت کو جان کے لالے پڑے ہیں، سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی مزاحیہ میمز، تصویروں، ویڈیوز اور ٹیکسٹ پیغامات نے اس سنجیدہ مئسلے کو عوامی تفریح کا ذریعہ بنا دیا ہے۔مذاق کا نشانہ بن رہی ہے حکومت اور عمران خان۔

سب جانتے ہیں کہ حکومت کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔سوشل میڈیا پر جہاں کچھ لوگ اپنے رد عمل کے اظہار میں ''سرخ لکیر‘‘ کراس کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں بعض ماہرین کے بقول یہ غیر سینسر شدہ عوامی ردعمل ہے جس سے رائے عامہ کے رجحانات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ عمران کی حکومت کے بعض حامیوں کی لفظی گولہ باری کا رخ ملک کے طاقت ور حلقوں کی طرف بھی ہوتا جا رہا ہے۔

سب کی اپنی اپنی رائے ہے ،سب کا اپنا نظریہ ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ لوٹے سیاسی پارٹیوں میں موجود سرکار کے نمائندے ہیں اور یہ پاکستان کی سیاست کی گاڑی میں اسٹیئرنگ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ سرکار انہی کے ذریعے پاکستان کی سیاست کا رخ موڑتی ہے۔

عوام کھل کر اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ایک صارف نے سوال اٹھایا کہ سندھ ہاوس میں تو پیسوں کی بوریاں تقسیم ہو رہی ہیں لیکن کیا جہانگیر ترین کے جہاز میں جائے نماز، تسبیحیاں اور مسواکیں تقسیم ہوتی رہیں تھیں۔ایک اور پوسٹ میں پوچھا گیا کہ ''جب سینیٹ کے الیکشن میں 34 ارکان والی پارٹی نے 65 ارکان والی اپوزیشن کو ہرایا تھا تب آپ کا ضمیر کیوں غیر مطمئن نہیں ہوا؟‘‘ مبینہ طور پر پارٹی چھوڑنے والے پی ٹی آئی کے تینتیس ارکان اسمبلی کے پس منظر میں ایک صارف نے لکھا کہ نئے پاکستان سے پہلا طیارہ 33 مسافروں کو لے کر پرانے پاکستان میں لینڈ کر گیا ہے۔

لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے پاکستان کو بیچ دیا ہے۔ قرض میں ڈوبا ہوا پاکستان اب کنگال ہے۔ ایک صارف نے وفاداری بدلنے والے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے نام اور تصویریں ایک صفحے پر لگا کر ای کامرس کے سے اندزاز میں ان تصویروں کے اوپر لکھا "سولڈ آؤٹ" یعنی فروخت ہو چکے ہیں۔ایک اور صارف نے اپنی پوسٹ میں رائے دی کہ جب آپ اقتدار کے لالچ میں اپنے نظریاتی کارکنوں کو چھوڑ کر لوٹوں پر انحصار کریں گے تو اس کا انجام یہی ہو گا۔ کیونکہ لوٹے لوٹ جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر جاری بحث اور تنقید دلچسپی کا سامان بنی ہوئی ہے۔ایک صارف نے لکھا کہ یہ بھی قیامت کی نشانی ہی لگتی ہے کہ بار بار پارٹیاں بدلنے والے شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، شیخ رشید اور پرویز خٹک جیسے لوگ دوسروں کو لوٹا کہہ رہے ہیں۔ ایک وڈیو میں ایک صاحب ترنم کے ساتھ پی ٹی آئی کے ایک ترانے کی پیروڈی اس طرح گنگناتے دکھائی دے رہے ہیں کہ

کب جائے گا عمران

 چھوٹے گی جان

 بچے گا میرا پاکستان۔

ایسا نہیں کہ صرف عمران خان کے مخالفوں نے مورچہ کھولا ہے بلکہ ان کے حامی بھی میدان میں ہیں۔ان حملوں کا کواب دے رہے ہیں۔ عمران خان کے ایک حامی نے لکھا، ''جو بیماری کی ایکٹنگ کرکے لندن چلا گیا وہ شیر ہے اور جو تن تنہا 11 پارٹیوں کا مقابلہ کر رہا ہے وہ گھبرایا ہوا ہے۔‘‘ یہ اچھا مذاق ہے۔

پاکستان کی ایک طاقتور شخصیت کے ساتھ  ۔۔ وزیر اعظم عمران خان کی تصویر کے ساتھ ایک جگہ لکھا ہوا ہے کہ 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔' کئی پوسٹوں میں پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

ایک میم میں بہت سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کسی سے بات کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ "سنا ہے کہ عالمی طاقتیں مجھے ہٹانے کے لئے اکٹھی ہو رہی ہیں۔

ایک اور پوسٹ کے مطابق اپوزیشن ارکان کی طرف سے وزیر اعلی پنجاب سے جب یہ کہا گیا کہ اگر وہ پوری اے بی سی سنا دیں تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ واپس لے لیا جائے گا۔ اس پر عثمان بزدارنے بڑی معصومیت سے پوچھا کہ ''اے بی سی نکی یا وڈی‘‘ یعنی کیا اے بی سی کیپٹل حروف والی سنانی ہے یا چھوٹے حروف والی،

کچھ سوشل میڈیا صارفین نے پاکستان مسلم لیگ قاف اور ان کے لیڈروں کو بھی نہیں بخشا۔ ایک پوسٹ میں ایک صارف نے لکھا کہ پاکستان مسلم لیگ قاف کے تمام اراکین کو جمع کر لیا جائے تو ان کی تواضح کے لیے منگوائی گئی کوک کی ڈیڈھ لٹر کی ایک بوتل میں سے سب کو ایک ایک گلاس دے دیا جائے، تو بھی ڈیڈھ گلاس بچ جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود معلوم نہیں کہ عدم اعتماد کے حوالے سے ان کی کئی ہفتوں سے جاری مشاورت کیوں ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔

ایک دوسری پوسٹ میں ایک صارف نے لکھا کہ چوہدری برادران حکومت کی تبدیلی کی کوششوں میں ساتھ دینے کے لئے ہونے والے مذاکرات میں اتنے سخت گیر مذاکرات کار ہیں کہ اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں وہ جنرل اسمبلی میں اپنے لیے مستقل نشست کا مطالبہ ہی نہ پیش کردیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں عمران خان چوہدری پرویز الہی اور ایم کیو ایم کو سخت الفاظ کے ساتھ ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔

ان دونوں پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اب عمران خان ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں علی سلمان نامی ایک صارف کا موقف یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ چوہدریوں کو قاتل کہیں یا پھر رکھ رکھاو والے لوگ قرار دیں ۔ اسی طرح انہیں اس بات کی بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ ایم کیو ایم والوں کو بھتہ خور کہیں یا نفیس لوگ۔ ان کے بقول اب پی ٹی آئی کارکنوں کی حالت اس گیت جیسی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 'رل تے گئی آن پر چس بڑی آئی اے'

ایک پوسٹ پر تحریر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اقتدار کا کوئی لالچ نہیں وہ تو چوہدریوں کے گھر رمضان کا کیلنڈر دینے گئے تھے۔ ایک اور پوسٹ میں دنیا کے خطرناک ہتھیاروں میں بیوی کے آنسو اور پڑوسن کی مسکراہٹ کے بعد چوہدریوں کی مشاورت کو شامل کیا گیا ہے۔

ایک دل جلے نے موجودہ حالات میں اپنے جذبات کے اظہار کے لئے معراج فیض آبادی کے ان اشعار کا سہارا لیا۔

جو تھے سیاسی گھرانے والے،سب ایک نکلے

بجھانے والے، جلانے والے، سب ایک نکلے

حرام کے رزق میں کوئی امتیاز کیسا

کہ کھانے والے، کھلانے والے، سب ایک نکلے

ہمارے ماضی کی اک عمارت یہ کہہ رہی ہے بچانے والے، گِرانے والے، سب ایک نکلے ایک ویڈیو میں ایک شخص ریڑھی پر چند بندے بٹھائے بازار سے گزرتے ہوئے ''ایم این اے لے لو، ایم این اے لے لو‘‘ جیسی آوازیں لگاتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک گاہک کے استفسار پر ریڑھی والا بتاتا ہے کہ آج کل پاکستان میں ایم این ایز کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔ جو بھی انہیں خریدے گا حکومت اسی کی ہو گی۔

تحریک عدم اعتماد کے پس منظر میں بہت سے لوگ حبیب جالب کے ان اشعار کو شیئر کر رہے ہیں۔

پہلے پہلے غَریب بِکتے تھے

اب تو عِزت مآب بِکتے ہیں

شیخ، واعظ، وزیر اور شاعر

سب یہاں پر جَناب بِکتے ہیں

دَور تھا اِنقلاب آتے تھے

آج کل انقلاب بِکتے ہیں

ایک من چلے نے لکھا کہ جیسے ہی فواد چوہدری نے یہ اعلان کیا کہ آصف زرداری پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی میں بیس بیس کروڑ بانٹ رہا ہے تو یہ سنتے ہی پی ٹی آئی کے بچے کچھے ممبران بھی سندھ ہاوس پہنچ گئے۔

ایک پوسٹ میں پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کی اردو زبان کی لغزشوں کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کی ایک ممکنہ تقریر میں سے علامہ اقبال کے ایک شعر کو اس طرح ادا ہوتے ہوئے بتایا گیا۔ دشت تو دشت تھے صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں گھوڑا دیۓ دوڑے ہم نے۔ یقینا لوگوں کو انتظار ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس لیے اب سب کی نظریں فوج کی جانب ہیں ۔کب اور کیسے وہ کرتی ہے فیصلہ۔