شنگھائی اجلاس: کیوں ہے اہمیت ، کیا ہے ایجنڈا اور کیوں ہیں سب کی نظریں مودی، پوتن اور شی پر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
 شنگھائی اجلاس:جانیے! کیوں ہے  اہمیت ، کیا ہے ایجنڈا اور کیوں ہیں سب کی نظریں مودی، پوتن اور شی پر مرکوز
شنگھائی اجلاس:جانیے! کیوں ہے اہمیت ، کیا ہے ایجنڈا اور کیوں ہیں سب کی نظریں مودی، پوتن اور شی پر مرکوز

 

 

  نئی دلی / سمرقند

منصور الدین فریدی

وزیرآعظم نریندرمودی کل شب سمرقند پہنچ گئے جہاں شنگھائی تعاون تنظیم کا بائیسواں سربراہی اجلاس آج سے شروع ہو رہا ہے۔ اجلاس میں اس مرتبہ  سب کی نظریں میری وزیر اعظم مودی پر مرکوز ہوگئی کیونکہ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے ، جب پاکستان میں قیادت بدل چکی ہے -ہندوستان اور چین کے تعلقات میں کچھ تلخی کم ہوئی ہے - تمام نظریں پھر پاکستان وزیر اعظم  مودی اور روسی صدر  ولادیمیر پوتن  کی ملاقات پر ہوں گی۔

دہلی سے روانہ ہونے سے قبل ایک بیان میں، مودی، جو جمعہ کو چین کے صدر شی جن پنگ، روس کے صدر ولادیمیر پوتن، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے، نے کہا، "ایس سی اوسربراہی اجلاس میں، میں منتظر ہوں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی توسیع اور تنظیم کے اندر کثیر جہتی اور باہمی فائدہ مند تعاون کو مزید گہرا کرنے کے لیے حالات، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر  کرنا -خیالات کا تبادلہ

جون 2019 میں کرغزستان کے بشکیک میں قائدین کے اجتماع کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ایک بار پھر ذاتی طور پر ایس سی قائدین سربراہی اجلاس شریک ہورہے ہیں

وزیر اعظم مودی کل شپ پہنچے سمرقند

اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان اور مبصر ممالک کے سربراہان کے ساتھ ساتھ ایس سی او تنظیموں کے سربراہان بھی شرکت کریں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان کونسل کے اجلاس میں رہنما اہم عالمی اور علاقائی مسائل پر غور کریں گے۔

وزیراعظم مودی سربراہی اجلاس میں شرکت کے علاوہ سائیڈ لائنز پر دیگر شریک رہنماؤں سے دو طرفہ ملاقاتیں کریں گے۔ سب کی نظریں پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف پر بھی ہونگی، جو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں، لیکن ان کے ساتھ ابھی مودی کے ساتھ ان کی کوئی ملاقات طے نہیں ہے۔

ہند پاک وزرا اعظم کا آمنا سامنا کہاں کہاں ہوگا؟

اجلاس میں وزیراعظم نریندر مودی اور شہباز شریف کا بھی آمنا سامنا ہوگا- سمرقند پہنچنے کے بعد تمام ممالک کے سربراہان یادگاری شجر کاری کی تقریب میں اکٹھے ہوں گے۔ن

ریندر مودی  اور  شہباز شریف پودا لگانے کے وقت ایک ہی جگہ موجود ہوں گے۔

اجلاس کے دوسرے روز یعنی جمعہ کو صدر ازبکستان شوکت مرزائیوف کا استقبالیہ ہوگا۔  نریندر مودی  اور شہباز شریف اس استقبالیے میں بھی ہوں گے۔

سربراہی کانفرنس میں جمعہ کو ہند پاک وزرائے اعظم ایک ہی میز ہر موجود ہوں گے۔

ماضی میں سنہ 2017 میں آستانہ، قزاقستان میں اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے شرکت کی تھی تو ظہرانے میں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی سے سلام دعا ہوئی اور ہاتھ بھی ملائے تھے۔

سال 2019 بشکیک، قرغستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں اس وقت پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور روسی صدر پوتن کے مابین روابط بڑھے تھے

اس اجلاس میں جب وزیر خارجہ شاہ محمود  تصدیق کی تھی کہ 'استقبالیے میں  وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے مابین سلام دعا ہوئی ہے اور ہاتھ بھی ملایا ہے لیکن اس کو باضابطہ ملاقات نہیں کہیں گے۔

 شنگھائی تعاون تنظیم کا ایجنڈا کیا ہے؟

بائیسویں سربراہی اجلاس میں خطے کے رکن ممالک کے مابین تجارتی روابط مضبوط کرنے پر بات چیت کی جائے گی کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد میں شامل ہے کہ 2030 تک رکن ممالک کے مابین معاشی و تجارتی تعلقات مضبوط ہو جائیں کیونکہ یہ خطے کی باہمی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

اس کے علاوہ ایشیائی خطے میں امن کا قیام اور سکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کرنا ہے۔  چین اور روس کے مابین یوکرین جنگ اور اس کے بعد سے خطے اور عالمی دنیا میں پیدا ہونے والے اثرات پر بھی بات چیت ہو گی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت؟

شنگھائی تعاون تنظیم جنوبی اور وسطی ایشیا میں پھیلی ایک بڑی بین علاقائی تنظیم ہے جس کا باقاعدہ قیام 2001 میں ہوا۔ اس سے قبل 1996 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پانچ رکن ممالک تھے جنہیں شنگھائی پانچ بھی کہا جاتا تھا۔ ابتدائی اراکین میں چین، روس، قزاقستان، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے۔ جب 2001 میں ازبکستان بھی شامل ہوا تو اس کا نام شنگھائی فائیو سے تبدیل کر کے ایس سی او رکھ لیا گیا

اس وقت نائن الیون کے بعد سے شدت پسندی عروج پر تھی اس کے علاوہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔ اس لیے ابتدا میں اس تنظیم کا مقصد شدت پسندی کا خاتمہ اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا تھا۔ بعد ازاں رکن ممالک کے مابین سکیورٹی اور تجارتی تعلق مضبوط کرنا اور امن کا قیام کو بھی شامل کیا گیا۔ 2017 میں آستانہ میں ہوئے اجلاس میں جہاں ہندوستان اور پاکستان کو بھی مستقل رکن کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کیا گیا جس کے بعد رکن ممالک کی تعداد اب آٹھ ہو چکی ہے۔

افغانستان، بیلا روس، ایران اور منگولیا آبزرور رکن ممالک ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال، ترکی، آزربائیجان، آرمینیا، کمبوڈیا اور سری لنکا ڈائیلاگ پارٹنر ممالک ہیں