اسکاٹ لینڈ یارڈ: بچوں کی نیم برہنہ حالت میں ’زبردستی تلاشی پر مانگی معافی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 08-08-2022
اسکاٹ لینڈ یارڈ: بچوں کی نیم برہنہ حالت میں ’زبردستی تلاشی پر مانگی معافی
اسکاٹ لینڈ یارڈ: بچوں کی نیم برہنہ حالت میں ’زبردستی تلاشی پر مانگی معافی

 

 

لندن: انگلینڈ میں دو سال کے دوران اسکاٹ لینڈ یارڈ نے 600 سے زائد بچوں کی نیم برہنہ حالت میں ’ زبردستی تلاشی‘ لی اور سیاہ فام لڑکوں کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا گیا۔

چلڈرن کمشنر کی جانب سے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 سے 2020 کے درمیان فورس کے افسران نے 10 سے 17 سال کی عمر کے تقریباً 650 بچوں کی نیم برہنہ حالت میں تلاشی لی۔

ان بچوں میں سے 58 فیصد کو سیاہ فام اور 95 فیصد سے زیادہ کو لڑکے قرار دیا گیا ہے۔ مارچ میں چائلڈ کیو اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد چلڈرن کمشنر ڈیم ریچل ڈی سوزا نے ان اعداد و شمار کی درخواست کی تھی۔

پولیس نے بھنگ لے جانے کے غلط الزام میں اسکول کی 15 سالہ طالبہ کی ماہواری کے ایام میں نیم برہنہ حالت میں تلاشی لی۔ میٹروپولیٹن پولیس کی خواتین افسران نے 2020 میں کسی دوسرے بالغ کی عدم موجودگی اور حیض کے علم کے باوجود تلاشی لی تھی۔

سٹی اینڈ ہیکنی سیف گارڈنگ چلڈرن پارٹنرشپ (سی ایچ ایس سی پی) کے جائزے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ نیم برہنہ تلاشی کبھی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ’یہ بلاجواز اور نسل پرستی تھی۔‘ اس واقعے کے سلسلے میں انڈپینڈنٹ آفس فار پولیس کنڈکٹ (آئی او پی سی) کی جانب سے میٹروپولیٹن پولیس کے چار افسران سے شدید بدتمیزی کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

اسکاٹ لینڈ یارڈ نے معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایسا کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘ لا فرم بھٹ مرفی نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ نوعمر لڑکی میٹ اور اپنے اسکول کے خلاف سول کارروائی کر رہی ہے تاکہ ’اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وعدہ لیا جائے کہ کسی دوسرے بچے کے ساتھ ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو۔‘

اس کے بعد سے آئی او پی سی نے تصدیق کی ہے کہ وہ 2020 سے 2022 کے اوائل کے درمیان بچوں کی مزید چار نیم برہنہ تلاشیوں کی تحقیقات کر رہی ہے اور غور کر رہی ہے کہ آیا مزید تین کیسز پر غور کیا جائے یا نہیں۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیم برہنہ حالت میں بچوں کی تلاشی کی تعداد میں اضافہ ہوا جو 2018 میں 18 فیصد، 2019 میں 36 فیصد اور 2020 میں 46 فیصد زیادہ ہے۔ تقریباً ایک چوتھائی (23 فیصد) معاملات میں بچوں کی نیم برہنہ تلاشی اس وقت لی گئی جب کوئی’ باضابطہ بالغ‘ فرد موجود نہیں تھا۔

قانون کے مطابق یہ ضروری ہے، سوائے’ ایمرجنسی‘ کے تلاشی کے دوران عام طور پر والدین یا سرپرست موجود ہوتے ہیں لیکن سماجی کارکن، یا رضاکار بھی ہو سکتے ہیں۔ جن کی تلاشی لی گئی ان میں سے دو تہائی (70 فیصد) سیاہ فام لڑکے شامل تھے۔

تمام معاملات میں سے مجموعی طور پر 53 فیصد کے نتیجے میں مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی، جس کے بارے میں بچوں کے کمشنر نے کہا اس سے ظاہر ہوتا ہے’ ہوسکتا ہے یہ تمام کیسز میں جائز یا ضروری نہ ہو۔‘