سعودی عرب اور اس کے عوام کے دفاع کے لیے پرعزم ہے: بلنکن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-10-2021
سعودی عرب اور اس کے عوام کے دفاع کے لیے پرعزم ہے: بلنکن
سعودی عرب اور اس کے عوام کے دفاع کے لیے پرعزم ہے: بلنکن

 

 

سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس کے اور امریکہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان ملاقات میں ایران کے جوہری پروگرام اور اس حوالے سے بین الاقوامی مذاکرات پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔  

 سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے جمعے کو جاری ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور ان کے امریکی ہم منصب اینٹنی بلنکن کے درمیان ملاقات ہوئی۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں سعودی وزیر خارجہ نے کہا: ’آج میرے دوست سیکرٹری بلنکن کے ساتھ ایک نتیجہ خیز ملاقات ہوئی، جس کے دوران ہم نے مشترکہ مفادات اور دونوں قوموں کے لیے تشویش کے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس دوران شراکت داری اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی بات چیت ہوئی۔

وزارت خارجہ کے مطابق شہزادہ فیصل نے ایران کے لیے خصوصی امریکی ایلچی روبرٹ میلی سے بھی ملاقات کی اور ’ایران کی جوہری معاہدے سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزیوں‘ پر مشترکہ اقدامات بڑھانے پر بات چیت کی۔

امریکہ سعودی عرب کا یمن تنازعے کے حل کے لیے امن منصوبے کا اعلان عرب نیوز کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے واشنگٹن میں شہزادہ فیصل کا استقبال کرتے ہوئے کہاامریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط شراکت داری ہے۔

ہم سلطنت کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ یہ شراکت داری بہت اہم ہے۔ ملاقات کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ بلنکن نے سعودی سرزمین پر حوثی حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ امریکہ سعودی عرب کی سرزمین اور اس کے لوگوں کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یمن میں تنازعے کے خاتمے کے لیے پائیدار حل کے مشترکہ ہدف‘ پر بھی بات چیت ہوئی۔ بدھ کو بلنکن نے واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر خارجہ یائیر لاپید اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے بھی ملاقات کی۔

اس بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بلنکن نے کہا کہ ایران کے لیے جوہری معاہدے میں واپسی اور اس میں تعاون کرنے کے لیے ’وقت ختم‘ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایران جوہری پروگرام کے حوالے سے تعاون نہیں کرتا تو پھر واشنگٹن تہران کی طرف سے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے دیگر آپشنز پر غور کر رہا ہے۔