یوکرین میں روس:اب کیا کرے گا مغرب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-02-2022
یوکرین میں روس:اب کیا کرے گا مغرب
یوکرین میں روس:اب کیا کرے گا مغرب

 

 

آواز دی وائس : جس کا خدشہ یا یقین تھا وہی ہوا ۔روس رکا نہیں اور یوکرین پر دھاوا بول دیا۔جنگ چھڑ چکی ہے۔دنیا فکر مند ہے کہ کہیں یہ جنگ طول نہ پکڑ لے۔ اب انتظار اس بات کا ہے کہ روس کے تیوروں کے سامنے مغرب کا موقف کیا ہوتا ہے۔

 بات پابندیوں تک محدود رہے گی یا پھر جنگ کے میدان میں امریکہ اور نیٹو بھی کود پڑیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینا جنگ کے طول پکڑنے کا خدشہ ہوگا۔

جب یوکرین میں گذشتہ سال کے اواخر میں بحران کا آغاز ہوا تو روسی صدر ولادی میر پوتن کی حکومت نے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو اپنے مطالبات کی ایک طویل فہرست جاری کی۔

روس کا سب سے بڑا مطالبہ تھا کہ نیٹو روس کی سرحد سے متصل سابق سوویت بلاک ریاستوں سے اپنے تمام فوجی، سازوسامان اور ہتھیار واپس بلا لیں۔

 پوتن کی جانب سے منگل کو مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسندوں والے علاقوں پر حملے کے حکم کے 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے بعد امریکی فوج روس کی دہلیز پر مزید فائر پاور بھیج رہی ہے۔

 صدر جو بائیڈن نے منگل کو ہی امریکی فوجیوں، طیاروں اور لڑاکا طیاروں کو مشرقی یورپ میں تعینات کرنے کا حکم دیا تاکہ شمالی بحر اوقیانوس معاہدے کی تنظیم (نیٹو) کے اتحادیوں کو یقین دلایا جا سکے اور ماسکو کی مزید جارحیت کو روکا جا سکے۔ 

صدر بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں کہا: ’میں نے اپنے بالٹک اتحادیوں ایستونیا، لٹویا اور لتھوانیا کو مضبوط بنانے کے لیے یورپ میں پہلے سے تعینات امریکی افواج اور سازوسامان کی اضافی نقل و حرکت کا اختیار دے دیا ہے۔

 روس کی جانب سے یوکرین کی سرحدوں پر ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد فوجیوں کی تعداد بڑھنے کے بعد سے وائٹ ہاؤس اور یورپی اتحادیوں نے عسکری طریقے سے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ 

کئی ماہ سے بائیڈن نے اصرار کیا ہے کہ امریکی فوجی یوکرین میں جو نیٹو کا اتحادی نہیں ہے، میں نہیں لڑیں گے لیکن انہوں نے یورپ کے دیگر حصوں سے امریکی افواج کو عارضی طور پر دوبارہ تعینات کرکے آس پاس کے ممالک میں دفاع کو دوگنا کیا ہے۔

 تقریبا چھ ہزار امریکی فوجی پہلے ہی جرمنی، پولینڈ اور رومانیہ بھیجے جا چکے ہیں۔ پولینڈ میں 82 ویں ایئربورن ڈویژن کے ساتھ امریکی پیراٹروپرز یوکرین پر حملے کے بعد اس کی مشرقی سرحد سے فرار ہونے والے ہزاروں پناہ گزینوں کے لیے فوجی سہولیات قائم کر رہے ہیں۔

 رومانیہ میں، جو جنوب میں یوکرین کی سرحد سے متصل ہے، ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل آرمی سٹرائیکر سکواڈرن جرمنی سے کسی بھی سرحدی مسئلے سے نمٹنے کی تیاری کے لیے منتقل ہو چکے ہیں۔

 اس کے علاوہ مشرقی یورپ میں فضائی دفاع کو تقویت دینے کے لئے 20 حملہ آور ہیلی کاپٹروں اور دو درجن لڑاکا طیاروں کی ایک بٹالین کی تعیناتی کا حکم دیا گیا ہے۔

 اب امریکہ کے پاس یورپ میں 90 ہزار سے زائد فوجی موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر مشرقی یورپ سے باہر تعینات ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ کے دوران بائیڈن نے پولینڈ میں امریکی زمینی فوجیوں کی تعداد دگنی سے زیادہ کر کے نو ہزار اور رومانیہ میں تقریبا دو ہزار کر دی ہے۔

 بائیڈن نے منگل کو جن فورسز کا اعلان کیا ہے ان میں تقریبا 800 سروس ممبران کی انفنٹری بٹالین ٹاسک فورس شامل ہے جو اٹلی سے بالٹک خطے میں منتقل ہوئی، جرمنی سے آٹھ ایف 35 لڑاکا طیاروں سے ’نیٹو کے مشرقی حصے کے ساتھ‘ بے نام اڈوں تک، جرمنی سے بالٹک تک 20 اے ایچ-64 اپاچی ہیلی کاپٹر، اور یونان سے پولینڈ تک 12 دیگر اپاچی ہیلی کاپٹر بھیجے گئے ہیں۔

 نیٹو کے مشرقی حصے میں اضافی زمینی اور فضائی افواج کی تعیناتی سے خطرات لاحق ہیں۔ 2014 میں پوتن کے جزیرہ نما کرائمیا کے ساتھ الحاق کے بعد سے امریکہ اور روس کے درمیان مواصلات محدود ہیں اور مواصلات میں کمی دونوں اطراف میں غلط تجزیوں اور فیصلوں کے امکان کو بڑھا رہی ہیں۔