اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے اپنی ڈرامائی علیحدگی کے سالوں بعد جمعرات کو امریکہ واپس اس کونسل میں شامل ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکہ کی یہ واپسی ساڑھے تین سال بعد ہوئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ کی غیر حاضری میں چین نے اس کونسل میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کونسل کے 18 نئے ارکان کو منتخب کیا ہے۔ نئے ارکان کی تین سالہ مدت کا آغاز یکم جنوری سے ہو گا۔ نئے ارکان کو خفیہ رائے شماری سے منتخب کیا ہے گیا ہے لیکن یہ انتخاب بلامقابلہ ہی تھا کیونکہ 18 نشستوں کے لیے 18 ممالک ہی امیدوار تھے۔
منتخب ہونے والے نئے ارکان میں امریکہ کے علاوہ ارجنٹائن، بینن، کیمرون، ارٹیریا، فن لینڈ، گیمبیا، ہونڈراس، بھارت، قزاقستان، لتھونیا، لکسمبرگ، ملائشیا، مونٹی نیگرو، پیراگوائے، قطر، صومالیہ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ اس کونسل کی ذمہ داریوں میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کو فروغ دینا اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانا شامل ہے۔
اس کے علاوہ یہ کونسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تجاویز دینے اور ان پر غور کرنے کا کام کرتی ہے۔ ارٹیریا کے انتخاب نے کونسل کے ارکان میں ایک سخت گیر حکومت کی موجودگی پر سوال بھی اٹھا دیے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ نے سال 2018 میں اس کونسل سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ امریکہ نے انسانی حقوق کونسل پر منافقانہ رویے اور اسرائیل کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم امریکی صدر جو بائیڈن کی صدارت کے دوران کونسل میں واپسی پر امریکہ کو ایک بااثر چین کا سامنا کرنا ہو گا جس نے امریکہ کی غیر موجودگی میں اپنا اثر بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔