افغان خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے رینا امیری سفیر مقرر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-12-2021
افغان خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے رینا امیری  سفیر مقرر
افغان خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے رینا امیری سفیر مقرر

 

 

 واشنگٹن : امریکہ نے طالبان کی جانب سے پابندیوں میں اضافے کے ساتھ ہی ترجیحی بنیادوں پر کوششیں تیز کرتے ہوئے افغان خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے رینا امیری کو سفیر مقرر کیا ہے۔وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اعلان کیا کہ سابق صدر باراک اوباما کے دور میں دفتر خارجہ میں خدمات انجام دینے والی افغان نژاد امریکی رینا امیری افغان خواتین، لڑکیوں اور انسانی حقوق کے لیے خصوصی سفیر کا کردار ادا کریں گی۔اینٹنی بلنکن نے مزید کہا کہ امیری ’میرے لیے انتہائی اہم‘ اور صدر جو بائیڈن کی باقی انتظامیہ کے مسائل پر توجہ دیں گی۔

بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ ہم پرامن، مستحکم اور محفوظ افغانستان کے خواہش مند ہیں جہاں تمام افغانوں کو سیاسی، معاشی اور سماجی شمولیت کا حق حاصل ہو اور وہ ترقی کر سکیں۔

رینا امیری سابق صدر باراک اوباما کے دور میں افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی کی سینیئر مشیر کے طور پر کام کر چکی ہیں۔وہ دو دہائیوں سے حکومتوں، اقوام متحدہ اور تھنک ٹینکس کو افغانستان کے متعلق مسائل پر مشورے دے رہی ہیں۔

طالبان نے 1996 سے 2001 تک اپنی حکومت میں، جسے امریکہ نے حملہ کرکے ختم کردیا تھا، افغانستان میں انتہائی سخت نظام نافذ کیا تھا جس میں خواتین پر کام کرنے اور لڑکیوں پر تعلیم کے متعلق پابندیاں بھی شامل تھیں۔

بعدازاں رواں برس اگست میں امریکی انخلا کے دوران اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آنے والے طالبان نے وعدوں کے باوجود بہت سی خواتین کو کام پر واپس جانے اور لڑکیوں کو تعلیم سے روک دیا ہے

اتوار کو طالبان نے کہا تھا کہ خواتین کو محرم کے بغیر طویل فاصلے تک سفر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اپنی تقرری سے کچھ دیر قبل رینا امیری نے ٹوئٹر پر لکھا: ’مجھے حیرت ہے کہ جو لوگ دنیا کو یہ یقین دلا کر دوبارہ طالبان کو لائے تھے کہ وہ بدل گئے ہیں، وہ طالبان کی جانب سے خواتین کے خلاف پسماندہ اور سخت پالیسیوں کی بحالی کی وضاحت کیسے کرتے ہیں۔‘ اس سے قبل افغانستان میں ایک وزارت نے ٹیلی ویژن چینلز سے کہا تھا کہ وہ خواتین اداکاروں پر مشتمل ڈرامے دکھانا بند کریں اور خواتین صحافیوں سے سکارف پہننے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

- دوسری جانب افغان خواتین عوامی سطح پر مظاہروں کے ذریعے اپنی آواز اٹھا رہی ہیں

رینا امیری کی تقرری کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر اسلامی امارت افغانستان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اجنبی ہمارے عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے۔ اگر وہ کر سکتے تو وہ گذشتہ 20 سالوں میں ایسا کرسکتے تھے۔

انہوں نے امداد کو انسانی حقوق سے جوڑنے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنی اسلامی اقدار اور قومی مفادات کی روشنی میں اپنے عوام کے لیے غیر مشروط امداد چاہتے ہیں۔

رینا امیری کا خاندان ان کے بچپن میں ہی افغانستان چھوڑ کر کیلیفورنیا میں آباد ہو گیا تھا۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان میں امریکی جنگ شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں طالبان کے زیر اقتدار رہنے والے افغانوں خصوصاً خواتین کے بارے میں کھل کر بات کرنا شروع کر دی تھی۔

وہ امریکی سفارت کار رچرڈ ہالبروک کی مشیر بن گئیں، جن کی آخری ذمہ داری افغانستان اور پاکستان کے متعلق تھی اور انہوں نے اقوام متحدہ کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔

ایک حالیہ مضمون میں رینا امیری نے زور دیا ہے کہ طالبان حکومت کو سفارتی طور پر قبول کیے بغیر ان کے ساتھ ’اصولی لیکن عملی سفارتی بات چیت‘ ہونی چاہیے۔

رینا امیری نے ستمبر میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’امریکہ اور یورپ کو اپنے شہریوں اور اتحادیوں کو نکالنے اور انسانی رسائی کو مربوط کرنے کے مقاصد کے لیے طالبان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے سے آگے بڑھنا چاہیے۔

انہوں نے لکھا کہ ’صرف انسانی امداد سے تباہ حال معیشت، بنیاد پرستی اور عدم استحکام کو نہیں روکا جا سکے گا۔‘

 گذشتہ ماہ امریکی صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے ایک خط میں امریکی سینیٹ میں خدمات انجام دینے والی تمام 24 خواتین نے ان پر زور دیا تھا کہ وہ افغان خواتین کے حقوق کی حمایت کے لیے ایک ’بین الایجنسی منصوبہ‘ تیار کریں۔ جب سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان پر حملے کا حکم دیا تھا تو بہت سے امریکی پالیسی سازوں نے خواتین کے ساتھ سلوک کا مسئلہ اجاگر کیا تھا۔ بائیڈن امریکہ کی طویل ترین جنگ کے دیرینہ نقاد تھے۔ جارج پیکر کی سوانح حیات میں درج ہے کہ انہوں نے ہالبروک کے ساتھ ایک گرما گرم بحث میں ان پر چیختے ہوئے کہا تھا کہ ’میں خواتین کے حقوق کی خاطر اپنے فوجیوں کو اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے لیے وہاں واپس نہیں بھیج رہا۔‘