گوادرمیں عوامی طوفان ،28دنوں بعد جاگے عمران خان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-12-2021
گوادرمیں عوامی طوفان ،28دنوں بعد جاگے عمران خان
گوادرمیں عوامی طوفان ،28دنوں بعد جاگے عمران خان

 

 

گوادر: بلوچستان(پاکستان)

گوادر میں آج ہزاروں افراد اپنی عزت اور بنیادی حقوق کیلئے نکل چکے ہیں مگر عدلیہ اور ریاستی زمہ دار اداروں نے بلوچستان کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ 2دہائیوں سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، جبری گمشدگی، ماوارئے عدالت قتل، طالب علموں کی گمشدگی اور قتل لوگوں کے روزگار کی تباہی سمیت بلوچستان کے لوگوں کا استحصال جاری ہے لیکن ریاست کا کوئی بھی ادارہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی ہے جو بہت بڑا المیہ ہے۔

اس تحریک کے 28ویں دن پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان جاگے ہیں ،انہوں نے ٹیوٹر پر گوادر تحریک کے تعلق سے اپنی آگاہی کے بارے میں لکھا ہے

میں نے گوادر کے محنتی ماہی گیروں کے انتہائی جائز مطالبات کا نوٹس لیا ہے۔ ٹرالروں سے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت ایکشن لیں گے اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی بات کریں گے۔‘ بلوچستان کے ضلع گوادر میں ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کا احتجاجی دھرنا 28 ویں روز بھی جاری رہا۔

 عمران خان کے بیان کے جواب میں مولانا ہدایت الرحمن نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ :۔

بہت شکریہ وزیراعظم صاحب! دیر آید درست آید صوبائی حکومت ہمارے مطالبات جائز مانتی ہے۔ صوبائی وزرا بارہا اظہارکرچکے، کچھ نوٹیفیکیشنز بھی جاری کیے، مگر ان پر عملدرآمد نہیں کروایا جا سکا۔ آپ کےنوٹس کا خیرمقدم کرتےہیں۔ مجھے امید ہےکہ اب حق دو تحریک کے مطالبات پر عملدرآمد ہوتا نظر آئےگا۔

 دراصل اس قسم کے وعدے اور لفظی جمع خرچ کوئی نہیں ہے۔ بلوچستان میں جاری سنگین انسانی خلاف ورزیوں پر پاکستان کی میڈیا، مین اسٹریم کی سیاسی جماعتیں، عدلیہ سمیت انسانی حقو ق کے اداروں نے بھی خاموشی اختیا ر کرلی ہے۔بلوچستان کے کونے کونے میں لوگ بدترین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں مگر کوئی بھی ریاستی ادارہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بات نہیں کر رہا اور انہیں روکنے کیلئے کوئی بھی عملی اقدامات دیکھائی نہیں دے رہا۔ریاست کے اداروں کی بنیادی زمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کی تحفظ کریں مگر شہریوں کے حقوق کی تحفظ کے بجائے تمام اداروں کا رویہ بلوچستان کے حوالے سے منفی ہے جس کا ردعمل آج بلوچستان بھر میں ہمیں دیکھائی د ے رہا ہے۔

 پاکستان نے تعلیمی اداروں کے بجائے چیک پوسٹیں دیں

گوادر میں ’حق دو بلوچستان کو‘ تحریک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے چیک پوسٹوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے۔ ہمیں تو لگتا تھا کہ گوادر میں سی پیک کے منصوبے سے ہمیں ہماری زندگی اچھی ہوجائے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مرکز گوارد میں 15 نومبر سے مقامی افراد جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی سیکٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن کی سربراہی میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمن نے کہا ہے کہ ’ہمارے مطالبات بڑے نہیں ہیں۔ ہم سی پیک کی مد میں موٹر وے نہیں مانگ رہے ہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ گوادر اور مکران کی سڑکوں پر ٹائل لگائیں یا سنگ مر مر کے روڈ بنا دیں اور نہ ہی یہ کہ ہمیں ایک کروڑ نوکریاں دے دیں۔

 حق دو بلوچستان کو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا ہے کہ حکومت مقامی افراد کے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتی بلکہ اب ان کے خلاف مقدمات درج کر رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ دھرنا جاری رہے گا۔ ہم پاکستانی شہری ہیں اور ہم اپنے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

awazurdu

 جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی سیکٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن 


پہلا مطالبہ

انہوں نے اس تحریک میں اپنے پہلے مطالبے کے حوالے سے بتایا کہ ’ہمارے مطالبات ہیں کہ ’جو سمندر ہے اور 750 کلومیٹر کا ساحل ہزاروں سالوں سے ہمارے آبا و اجداد کے روزگار کا ذریعہ ہے وہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود ٹرالر مافیا سمندری حیاتیات کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ یہاں غیر قانونی ماہی گیری اور ممنوعہ جال استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث سمندر میں مچھلیاں ختم ہوگئی ہیں۔ان کے مطابق اسی وجہ سے لاکھوں ماہی گیر متاثر ہوئے ہیں۔ اگر ہماری مدد کرنے کے لیے حکمران ہم سے ٹیکس لیتے ہیں تو ہم انہیں ٹیکس دیں گے مگر خدا کے لیے ہمارے روزگار پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے۔

 دوسرا مطالبہ 

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے پانچ اضلاع پاک ایران سرحد پر ہیں۔ ایران ہمارا اسلامی برادر ملک ہے جہاں سے ہماری اشیائے خرد و نوش اور ان پانچ اضلاع کی بجلی حاصل کی جاتی ہیں۔ بارڈر کی بندش کی وجہ سے گوادر میں لاکھوں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر سکیورٹی ضروری ہے تو کریں مگر آزادانہ اور باعزت روزگار کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔‘

تیسرا مطالبہ

حق دو بلوچستان کو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا تھا کہ ’ہمیں سی پیک سے چیک پوسٹوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ ہمیں تو لگتا تھا کہ گوادر میں سی پیک کے منصوبے سے ہمیں ہماری زندگی اچھی ہوجائے گی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن ہوگی۔ ہمیں علاج کے لیے کراچی جانا نہیں پڑے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

 ان کے مطابق: ’اس منصوبے نے ہمیں صرف چیک پوسٹیں دی ہیں جو کہ پہلے شاید 100 تھیں اور اب شاید 10 ہزار ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ ’دن میں پانچ بار ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ شناختی کارڈ دکھائیے، کیا آپ اس ملک کے شہری ہیں؟ تو ہم ہر بار شناختی کارڈ دکھاتے اور قسم کھاتے ہیں کہ ہاں ہم پاکستانی ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ ’ہمارے تعلیمی ادارے، ہسپتال، تفریحی مقامات، میدان، گھروں کے اندر اور اوپر اور سمندر کے کنارے چیک پوسٹیں ہیں۔ کیا ہم آزاد شہری ہیں یا ہم جیل میں رہ رہے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کردیا جائے۔

چوتھا مطالبہ

مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ ’بلوچستان کے 10 لاکھ نوجوان منشیات کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں دن میں روشنی میں منشیات کا کاروبار ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں منشیات سمندر اور زمینی راستے سے آتی ہیں۔ اگر یہاں بازار میں منشیات بک رہی ہیں تو کہیں سے تو آرہی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ’منشیات کی روک تھام میں ہمارے ادارے ناکام ہیں اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں منشیات کے کاروبار کو روکا جائے۔

awazurdu

بلوچ متحدہ محاذ (بی ایم ایم) کے صدر میر یوسف مستی خان جنہیں  حکومت مخالف تقریر پر گرفتار کیا گیا


 انسانی حقوق کی پامالیاں سنگین سطح پر

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں سنگین سطح پر ہیں، عدالیہ کو بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلا ف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ گوادر،اسلام آباد اور کراچی میں ہونے والے پروگرامز سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورا بلوچستان احتجاج پر ہے۔

عدلیہ کو بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنی خاموشی توڑ کر پاکستان کے آئین کے مطابق سزا و سزا کے فیصلے پر عمل کروانا ہوگا۔ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیاں پاکستان کی اپنی آئین کی خلاف ورزیاں ہیں اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو مستقبل میں حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ لوگ شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، پانی کیلئے بھی لوگ اب ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل پر مجبور ہو چکے ہیں۔

 آخر میں کہا کہ ایک طرف دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن منایا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں انسان اپنی حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہیں مگر ان کے حقوق کی تحفظ کے بجائے تمام ادارہ بلوچستان میں انسانی حقو ق کی خلاف ورزیوں میں پیش پیش ہیں۔ عدالت عالیہ کی زمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے ان زیادتی کے خلا ف کردار ادا کرتے ہوئے اپنی بنیادی زمہ داریوں کو پورا کریں۔

معاشی حقوق سے جینے کا حقوق تک چھین لیا گیا ہے لوگ ریاست سے جینے کیلئے احتجاج پر ہیں مگر انہیں حقوق فراہم کرنے کے بجائے انہیں مزید دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی واضح مثال بزرگ بلوچ رہنماء یوسف مستی خان کی گرفتاری ہے۔ برسراقتدار حکمران اور عدلیہ کی زمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہونے والے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کیلئے اپنا بنیادی کردار ادا کریں۔