’فائزر، بائیو این ٹیک، موڈرنا ہر سیکنڈ ایک ہزار ڈالر کما رہے ہیں‘

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 16-11-2021
’فائزر، بائیو این ٹیک، موڈرنا ہر سیکنڈ ایک ہزار ڈالر کما رہے ہیں‘
’فائزر، بائیو این ٹیک، موڈرنا ہر سیکنڈ ایک ہزار ڈالر کما رہے ہیں‘

 


آواز دی وائس، خاص

فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا اپنی کامیاب کورونا ویکسین کی وجہ سے مجموعی طور پر ہر منٹ 65 ہزار ڈالر کا منافع کما رہے ہیں۔ تاہم نئے تجزیے کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ پسماندہ مملک میں عوام کا بڑا حصہ اب بھی غیر ویکسین شدہ ہے۔

ذرائع کے مطابق ان کمپنیوں نے اپنی خوراکوں کی زیادہ تر کھیپ امیر ممالک کو فروخت کی ہے، اس وجہ سے کم آمدن والے ممالک پیچھے رہ گئے ہیں۔ پیپلز ویکسین الائنس ایک اتحادی گروپ ہے جو کورونا ویکسین کی رسائی کے لیے مہم چلا رہا ہے۔

اس گروپ کے حسابات مذکورہ کمپنیوں کی اپنی آمدنی کی رپورٹس پر مبنی ہیں۔ گروپ کے اندازوں کے مطابق یہ تینوں کمپنیاں رواں برس ٹیکس سے قبل 34 ارب ڈالر کا منافع کمائیں گی۔

اس حساب سے ایک سیکنڈ کا منافع ایک ہزار ڈالر، ایک منٹ کا 65 ہزار ڈالر اور ایک دن کا نو کروڑ 35 لاکھ ڈالر بنے گا۔

افریقن الائنس اینڈ پیپلز ویکسین الائنس افریقہ کی مازا سیئم کا کہنا تھا کہ ’یہ حیرت انگیز بات ہے کہ صرف کچھ کمپنیاں ہر گھنٹے لاکھوں ڈالر کا منافع کما رہی ہیں، جبکہ کم آمدن والے ممالک میں صرف دو فیصد افراد کورونا وائرس کے خلاف مکمل طور پر ویکسین شدہ ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا نے امیر ترین حکومتوں سے سب سے زیادہ منافع بخش کانٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی اپنی اجارہ داریوں کا استعمال کیا اور کم آمدن والے ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا۔

پیپلز ویکسین الائنس کا کہنا تھا کہ فائزر اور بائیو این ٹک نے اپنی کُل سپلائز میں سے ایک فیصد سے بھی کم، کم آمدن والے ممالک کو فراہم کیا ہے جبکہ موڈرنا نے صرف 0.2 فیصد دیا ہے۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق کم آمدن والے ممالک میں 98 فیصد افراد مکمل طور پر ویکسین شدہ نہیں ہیں۔ ان تین کمپنیوں کے اقدامات کے برعکس ایسٹرازنیکا اور جانسن اینڈ جانسن نے اپنی ویکسین منافع کی بنیاد پر فروخت نہیں کی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا سے درخواست کی تھی کہ اپنی ویکسین کی ٹیکنالوجی کو کم اور درمیانی آمدن والے ممالک تک پہنچائیں۔ تاہم آٹھ ارب ڈالر کی فنڈنگ ملنے کے باوجود ان تین کمپنیوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا ہے۔

’اس اقدام سے عالمی سپلائی میں اضافہ، قیمتیں کم اور لاکھوں جانیں بچ سکتی ہیں۔