پشاور : حکیم ستنام کے قتل کے بعد سکھوں میں دہشت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-10-2021
سکھوں میں خوف و دہشت
سکھوں میں خوف و دہشت

 

 

پشاور : پاکستان میں اقلیتوں پر مظالم کی نئی کڑی بنی ہے پشاور میں ،جہاں دو دن قبل سکھ حکیم کو دن دھاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اس واقعہ نے زبردست خوف و ہراس پیدا کردیا ہے۔اس قتل کی ذمہ داری داعش نے لی ہے۔

سردار ستنام سنگھ چارسدہ روڈ پر ’دھرمندر دواخانہ‘ کے نام سے دکان چلا رہے تھے اور پشاور کی سکھ برادر میں جانے پہچانی شخصیت تھے۔پشاور میں تقریباً 15 ہزار سکھ آبادی موجود ہے جو زیادہ تر پشاور کے محلہ جوگن شاہ میں رہتے ہیں۔سکھوں نے کبھی نہیں کہا کہ پنجاب کے درمیان لکیر کو ختم کیاجائے-

ان میں سے کچھ قبائلی ضلع خیبر سے ہجرت کر کے پشاور میں آباد ہوئے۔ پشاور کی سکھ برادری کے زیادہ تر لوگ کاروبار سے وابستہ ہیں جبکہ پشاور کے مختلف علاقوں میں سکھ برادری کے افراد دواخانے بھی چلا رہے ہیں۔اس سے پہلے بھی پشاور میں سکھ برادری کے افراد کو ایسے حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا

اسی طرح 2020 میں ایک نیوز چینل سے وابستہ اینکر رویندر سنگھ کے بھائی کو پشاور میں قتل کر دیا گیا تھا تاہم بعد میں پولیس تفتیش یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ ایک ذاتی معاملہ تھا اور ان کو منگیتر کی ایما پر ایک شخص نے قتل کیا تھا۔ اسی طرح 2016 میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی سورن سنگھ کو بھی قتل کیا گیا تھا لیکن پولیس تفتیش کے بعد معلوم ہوا تھا کہ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا

سکھوں میں خوف

حکومت کی نا اہلی اور بار بار ایسے واقعات ہونے کے سبب خیبر پختونخوا کی سکھ برادری کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ سکھوں کی بڑی تعداد سابق قبائلی اضلاع سے نقل مکانی کر کے پشاور میں قیام پذیر ہے۔بات واضح ہے کہ حکومت ایسے واقعات کو روک نہیں سکی ہے جس کے سبب مستقبل میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ مزید کوئی حملے نہیں ہونگے۔

 ذمہ داری لی داعش نے ،کیس نامعلوم کے خلاف

 داعش خراسان (آئی ایس کے پی) نامی تنظیم نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم پشاور پولیس کے مطابق انہیں 'نامعلوم افراد‘ نے قتل کیا ہے۔ پولیس کے تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے، ''جائے واقعہ سے شواہد جمع کر لیے گئے ہیں اور جلد ہی اس قتل میں ملوث افراد کو پکڑ لیا جائے گا۔ 

خیبر پختونخوا میں ساڑھے پانچ سو سے زیادہ سکھ خاندان رہائش پذیر ہیں، جو بلاتفریق مسلمانوں کی خوشیوں اور غموں سمیت مذہبی تہواروں اور فلاحی کاموں میں شریک ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران خیبرپختونخوا اور سابق قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران سکھوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ برسوں سے صوبے میں رہائش پذیر سکھوں نے اس وقت اپنے آبائی علاقے چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا، جب ان سے علاقے کے جنگجو گروپوں نے بھتہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ انہی حالات میں ستنام سنگھ بھی اپنے خاندان کے ہمراہ پشاور منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے سکھ برادری کے رہائشی علاقے محلہ جوگن شاہ میں رہائش اختیار کر رکھی تھی۔ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ علاقہ چھوڑنے کے باوجود انہیں نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ نہیں رک سکا اور انہیں دھمکیاں بھی ملتی رہیں۔

دھمکیاں مل رہی تھیں

 اقلیتوں کی ایک تنظیم مائینارٹی رائٹس فورم پاکستان کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کو بھی انتخابی مہم چلانے کے دوران دھمکیاں ملنی شروع ہوئی تھیں، جس کے بعد انہیں پشاور چھوڑ کر پنجاب منتقل ہونا پڑا۔ حکیم ستنام سنگھ کے قتل کے واقعے پر رادیش سنگھ کا کہنا تھا کہ حالیہ کچھ عرصے میں دس سے بارہ سکھوں کو قتل کیا گیا اور ابھی تک کسی کے قاتل کو سزا نہیں ملی۔

اس کیس میں بھی کچھ نہیں ہونا، انصاف ملنا مشکل لگتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پولیس کیا کرتی ہے۔ ایک طرف حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا دعوی کر رہی ہے لیکن دوسری جانب دہشت گرد آسانی سے بے گناہ افراد کو قتل کر رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔

 ستنام سنگھ کے قتل نے خیبرپختونخوا میں رہائش پذیر سکھ برادری کو پھر سے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ بعض سکھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے دونوں ممالک میں رہائش پذیر سکھوں کی زندگیوں کو خدشات لاحق ہو گئے ہیں۔ سکھ برادری کو اب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے اس بیان پر بھی یقین نہیں، جس میں انہوں نے ستنام سنگھ کے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کا کہا ہے۔