پاکستان قومی اسمبلی :انا للہ و انا الیہ راجعون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-06-2021
ہنگامہ آرائی کا منظر
ہنگامہ آرائی کا منظر

 

 

AWAZURDU

 خالد منہاس۔ لاہور (پاکستان)   

کل قومی اسمبلی میں جو ہوا وہ تماشا پوری دنیا نے ٹی وی سکرین پر دیکھا۔ اس پر طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دھڑا دھڑ ویڈیوز جاری کی جارہی ہیں اور اس فعل پر ہر کوئی اپنے انداز میں تبصرہ کر رہا ہے۔ جن کا تعلق اپوزیشن سے ہے وہ کل کے ہنگامے کی ویڈیو شیئر کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے حامی مسلم لیگ ن کے شیخ روحیل اصغر کی ویڈیو جو کچھ عرصہ پہلے بنی تھی وہ جاری کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے صارفین یہ لفظی چاند ماری ان کے لیے کر رہے ہیں جو انہیں کچھ نہیں سمجھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سراب کا شکار ہیں۔ ہمیں دکھایا کچھ جاتا ہے اور کیا کچھ جاتا ہے۔کل کا سیشن اجڈ اور گنوار لوگوں کا اجتماع نظر آیا جس میں زور اس با ت پر دیا جارہا تھا کہ کون زیادہ بدتمیزی کرتا ہے اور اس کام میں حکومتی بنچوں نے اپنی برتری ثابت کر دی۔ حکومتی بنچ نے اپوزیشن پر ثابت کر دیا کہ ہمیں ایوان میں عددی برتری حاصل ہے تو بد تہذیبی میں بھی ہم آپ سے آگے ہیں۔ ایوان میں جس طرح ماں بہن کی گالیاں دی گئیں اس کے بعد کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ کوئی مہذب کام کرنے کے قابل ہیں۔ ایوان میں شور شرابا کرنا عام طو ر پر اپوزیشن کا کام ہوتا ہے اور اپوزیشن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایوان کو نہ چلنے دے لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے جہاں پر حکومتی بنچ یہ کوشش کر رہا ہے کہ ایوان نہ چلے۔بجٹ کی دستاویزات جس طرح ایک دوسرے پر اچھالی گئیں اور جس طرح شور شرابا کیا گیا اس پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔یوں لگ رہا تھا جیسے چاند ماری کی جارہی ہے یا عمران خان کی ٹیم کے لوگ فیلڈنگ کی پریکٹس کر رہے ہیں۔

 

اس ہنگامہ کی باز گشت ایک عرصہ تک سنائی دیتی رہے گی۔ مراد سعید سے لے کر شیریں مزاری اور زرتاج گل سے شفقت محمود ہر ایک نے خوب داد وصول کی ہے۔ رہی سہی کسر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان کی خوش گفتاری نے پوری کر دی ہے۔ کارکردگی دکھانے میں گنڈا پور کیوں پیچھے رہتے، حکومت کو چاہیے کہ ان سب خواتین و حضرات کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازے۔ایوان میں لعنت لعنت کی آوازیں بھی گونجتی رہیں، ایک دوسرے پر لعنت بھیجی جار ہی تھی۔یہ وہ ایوان ہے جس نے ملک کی قسمت کو سنوارنے کے لیے قانون سازی کرنا ہے جس نے ملک و قوم کی بین الاقوامی برادری میں سر بلند کرنے کے اقدامات اٹھانے ہیں لیکن یہ یہاں پرسب دست و گریبان ہیں۔سارا قصور حکومتی بنچوں کا نہیں مسلم لیگ ن نے بھی حصہ بقدر جثہ شرکت کی۔خواجہ آصف کا ایک جملہ بہت یاد آ رہا ہے جو انہو ں نے اسی ایوان میں کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔کل کا اجلاس دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی بات سچ تھی۔ یہاں نہ شرم تھی نہ حیا۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ا ن کرداروں کا معاشرتی بائیکاٹ ہوتا اور اتنا شدید ردعمل آتا کہ جس نے بھی اس عمل میں حصہ لیا وہ معافی مانگے مگر یہاں ان کا دفاع کیا جار ہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ فلاں وقت میں ان لوگو ں نے یہ کام نہیں کیا تھا؟ مطلب ماضی میں اگر کوئی کام غلط ہوا ہے تو کیا اس غلط کام کو جاری رکھا جائے گا۔آج مرحومہ بے نظیر بھٹو یاد آ رہی ہیں۔ مارشل لا کے خلاف طویل جدوجہد کرنے کے بعد جب اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اقتدار سونپا تو انہوں نے انتقام لینے کے بجائے یہ کہا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔یعنی اگر جمہوریت ملک میں پھلے پھولے گی تو یہ ان قوتوں سے انتقام ہو گا جو اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دے رہیں۔نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے سیاسی محاذ آرائی کی ایک طویل تاریخ رقم کی ہے اور اس میں ہر قسم کے اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔ مسلم لیگ نے بے نظیر اور نصر ت بھٹو کی نازیبا تصاویر کی اشاعت کو ممکن بنایا تھا تو بے نظیر نے اپنے دورمیں اتفاق گروپ کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ ان کے جہازوں کو روک دیا گیا ان کے کارخانوں کو تالے لگا دیے گئے اور میاں شریف کو دفتر سے اٹھا لیا گیا۔ تاہم جب دونوں کو اقتدار سے باہر کر دیا گیا تو انہو ں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر دیے۔

 

ماضی کے کسی عمل کو سامنے رکھ کر کل ہونے والے واقعہ کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن نے اشتعال دلایا تو ہم نے ایوان کے اندر ماں بہن کی گالیاں دیں، ایوان کے تقدس کو پامال کیا اور ایوان کو چلنے نہیں دیا۔کل کے واقعہ میں وہ لوگ پیش پیش تھے جو ایک عرصہ تک عمران خان کے ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ وہ نہیں ہیں جنہیں ہانک کر ا ن کے پاس بھیجا گیا ہے، خان کو اپنی ٹیم ترتیب دینے سے پہلے ان کی تربیت کرناچاہیے تھی مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ ان میں سے جو اس ایوان میں دوسری دفعہ آئے ہیں وہ بھی نومولود تھے کیونکہ پچھلی بار تو کپتان نے انہیں میدان میں آنے نہیں دیا اور انہوں نے اسمبلیوں کا بائیکاٹ کیا،پوری تنخواہیں اور مراعات کو انجوائے کیا اور ایوان سے باہر رہ کر شور شرابا کیا۔ انہیں علم ہی نہ ہو سکا کہ ایوان کس طرح چلتا ہے، اپوزیشن کا کیا طریقہ ہوتاہے اور حکومت کا چلن کیسا ہونا چاہیے۔بجٹ پیش کرتے وقت ہنگامہ آرائی بھی ہوتی ہے اور صدر خطاب کرتا ہے تو کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ماضی میں کچھ غلط بھی ہوا تو کیا اس کو دہرانا ضروری ہے۔ چلو یہ کہہ لیں کہ ان اراکین اسمبلی نے بھی ایک تاریخ مرتب کر ذالی۔ 

ایوان میں نظر آنے والا ردعمل دراصل ہمارے معاشرے کی مجموعی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے منتخب نمائندوں کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ قوم کی اخلاقیات کیا ہیں۔ قوم اپنے مخالفین کا کس طرح سامنا کرتی ہے۔دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے ہم گالم گلوچ کرتے ہیں۔دوسرے کی آواز سننے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اپنی آواز اتنی اونچی کر لیتے ہیں کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دے۔ کپتان نے ہی کہا تھا کہ اگر اوپر ایماندار شخص آ جائے تو نیچے سب ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اب کوئی کپتان کو یہ بات یاد دلانے کی کوشش کرے تو سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ہرزہ سرائی شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ اختلافی بات کرنے سے گھبراتے ہیں کہ ان کے خلاف گالیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ہمارے قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو کل تک یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی نظام کائنات چلا رہے ہیں آج ان کی قبر پرفاتحہ کہنے والاکوئی نہیں۔ اس ملک اور معاشرے کو زندہ لوگوں نے چلانا ہے اور اس میں دلیل اور اختلاف کی با ت ہو گی تو ہم ترقی کریں گے۔ قبرستان کی خاموشی سے یا آوازوں کو بند کرنے سے کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ایک دور تھایہاں پر نظریات کی جنگ جاری تھی مگر یہ جنگ دلیل اور بحث سے ہوتی تھی اور یہ سب کچھ اس وقت ختم ہو گیا جب ہمارے چائے خانو ں میں یہ نوٹس آویزاں ہو گئے کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔ برداشت ختم ہو گئی ا ور معاشرے کو ان کرداروں نے یرغمال بنا لیا جو ان کے نقطہ نظر کو نہ مانے اسے مار دو۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔خا ن صاحب آپ اس ملک کے 22ویں وزیراعظم ہیں اس لیے ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے اپنی ٹیم کو تیار کریں اور کچھ ایسا کر جائیں کہ آنے والی نسلیں آپ کو یاد رکھیں۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا تو آپ کا نام بھی ان وزیراعظموں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جنہیں آج کوئی نہیں جانتا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون