پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی: ہندوستان سے بہتر تعلقات کی خواہش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی:62 صفحات میں 12 مرتبہ ہندوستان کا نام آیا
پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی:62 صفحات میں 12 مرتبہ ہندوستان کا نام آیا

 

 

نئی دہلی ۔ اسلام آباد : آواز دی وائس

بہت شور تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ پاکستان میں سرحد پار ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوئی راہ تلاش کی جاسکتی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ جمعہ کو حکومت پاکستان نے منظوری کے بعد قومی سلامتی پالیسی کا عوامی ورژن جاری کر دیا ہے۔ پالیسی میں ہندوستان سے متعلق پاکستانی موقف میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ جبکہ اس رپورٹ میں ہندو ستان کو منفی طور پر ہی یاد کیا گیا ہے۔

- اسلام آباد میں اس رپورٹ کو بڑی دھوم دھام کے ساتھ پیش کیا گیا۔پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کا عوامی ورژن سرورق سمیت 62 صفحات پر مشتمل ہے جس میں لفظ انڈیا یا بھارت 12 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ جس میں سے 11 مرتبہ منفی جبکہ صرف ایک مرتبہ مثبت انداز میں اس حوالے سے بات کی گئی ہے۔

یہ پالیسی سات سال کی محنت کے بعد متفقہ طور پر مرتب کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے اس لیے ہندوستان سے متعلق روایتی موقف میں تبدیلی نہ کی گئی ہو کہ کہیں تاثر غلط نہ جائے۔

پاکستان کا دعوی ہے کہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی میں قومی سطح پر ایک سمت کا تعین کر دیا گیا ہے۔ اب ہر ادارے کو علم ہو گا کہ پالیسی ترتیب دیتے ہوئے کن نکات کا خیال رکھنا ہے۔

یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ہندوستان سے متعلق پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ جنگ میں پہل نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی پالیسی کی منظوری گذشتہ سال دسمبر کے آخر میں پہلے نیشنل سکیورٹی کمیٹی اور پھر کابینہ نے دی تھی، جس کے بعد قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا تھا کہ اس پالیسی کا کچھ حصہ عوام کے لیے بھی جاری کیا جائے گا۔

پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کے عوامی ورژن میں ہندوستان کے بارے میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔

پاکستان کے پیٹ میں افغانستان کا درد جاری ہے ،اس لیے پالیسی میں کہا گیا ہے کہ مغربی سرحد سے مواصلاتی رابطہ پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے تاکہ خطے اور افغانستان میں امن قائم کیا جا سکے کیوں کہ ہندوستان کے جارحانہ عزائم نے اس مقصد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی واپسی میں اپنا کردار اور اس ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نظر نہیں آرہی ہے۔

پالیسی میں مزید کہا گیا ہے کہ سرحدی تنازعات کے حل کے لیے خصوصی توجہ درکار ہے۔ خاص کر لائن آف کنٹرول اور ان مستقل سرحدی علاقوں پر جہاں ہندوستان کی جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزی نے عوام کی جان اور مال سمیت خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ یہ باتیں اس وقت کہی جارہی ہیں جب ہندوستان سرحد پار دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے بلکہ پاکستان سے باہمی تعلقات کی بحالی میں یہی ایک رکاوٹ ہے۔

پاکستان کو یہ بھی درد ہے کہ ہندوستان کے ایٹمی عزائم اور اس پر مبہم بیانات سمیت خطرناک ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے۔ معاشی بحران کے باوجود فوجی ہتھیاروں کی آزمائش کرنے کے باوجود پاکستان کو ہندوستان سے یہ شکایت ہے۔

پاکستان کا ماننا ہے کہ مشرق کی جانب دو طرفہ تعلقات میں خرابی مسئلہ کشمیر کے حل میں تاخیر اور ہندوستان کی خود کو برتر ثابت کرنے کی سوچ کا شاخصانہ ہے۔جب بات ہندوستان کی ہوتی ہے تو کشمیر کی بات لاممی ہوجاتی ہے اس کے بغیر پاکستان کا ہاضمہ درست نہیں رہتا ہے۔ اس پالسی میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے تنازعے کا منصفانہ اور پرامن تصفیہ پاکستان کے لیے اہم سلامتی امور میں سے ایک ہے۔ ہندوستان کی جانب سے اگست 2019 میں لیے گئے یکطرفہ اقدامات کو جموں و کشمیر کی عوام نے مسترد کر دیا ہے۔

پاکستان کی یہ سوچ اس وقت ہے جب جموں و کشمیر ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے اور ترقی کی نئی راہوں کے ساتھ نوجوان مختلف میدانوں میں آگے نظر آرہے ہیں ۔

پالیسی میں کہا گیا ہے کہ پاکستان قومی اور بین الاقوامی سطح پر امن کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ہاکستان میں ہندتوا طرز سیاست میں اضافہ قابل تشویش ہے اور پاکستان کی سلامتی پر براہ راست اثرانداز ہو رہا ہے۔