پاکستان: پارلیمانی دنگل ختم مگروجود کی جنگ ابھی باقی ہے: تجزیہ کاروں کا دعوی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-04-2022
پاکستان: پارلیمانی دنگل ختم مگروجود کی جنگ ابھی باقی ہے
پاکستان: پارلیمانی دنگل ختم مگروجود کی جنگ ابھی باقی ہے

 

 

اسلام آباد : اب کیا ہوگا ؟یہ ہے سوال جو پاکستان کو پریشان کررہا ہے ۔قومی اسمبلی کے داو پینچ کے بعد جو ہونا تھا وہ ہفتے کی نصف شب سامنے آگیا۔ عمران خان فرش پر ہیں اور کل تک اپوزیشن کہلانے والا سیاسی اتحاد عرش پر ہے ۔کہیں خوشی اور کہیں غم کا ماحول ہے ۔پاکستان میں یوں تو اپوزیشن نے ہندسوں کی بنیاد پر جنگ جیت لی مگر ابھحی اصل جنگ باقی ہے۔ جو عام انتخابات کے شکل میں سامنے آئے گی۔

اب پاکستان کے ساتھ دنیا کی نظریں اگلے انتخابات پر رہیں گی کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ قومی اسمبلی میں اٹھا پٹخ کے بعد عمران خان کوعوام کی حمایت حاصل ہے ،اکثریت عمران خان کا ساتھ دے گی۔مگر یہ سب اندازے ہیں ،قیاس آرائیاں ہیں اور دعوے ہیں ۔ پیکچر ابھی باقی ہے دوستوں ۔

پاکستان میں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا ثبوت ملے گا عام انتخابات میں ۔جو ابھی ڈیڑھ سال کی دوری پر ہیں۔

آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے؟ کیا عمران خان جیل جائیں گے؟کیا انتخابات میں عمران خان کی واپسی ہوگی؟ کیا اپوزیشن کا جشن وقتی ثابت ہوگا؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ کون کیا کرے گا؟ اپوزیشن نے اقتدار سنبھال لیا ہے تو اس کا کردار کیا رہے گا۔مانا کہ بقول پاکستان مسلم لیگ  لیڈر شہباز شریف انتقام کی سیاست نہیں ہوگی لیکن انصاف ہوگا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کے لیے قانونی طور پر  مشکلات کا آغاز ہوسکتا ہے ۔دوسری جانب سوال یہ ہے کہ عمران خان کیا کرتے ہیں ؟ وہ عوام کے سامنے جائیں گے تو کون کون سا کارڈ ان کے لیے اثر دار ہوسکتا ہے؟ اول تو امریکہ کی سازش کا کارڈ ہے۔پھر مظلوم کا کارڈ ہے ۔دیکھنا ہوگا کہ اگر عام انتخابات ڈیڑھ سال بعد ہی ہوئے تو اس وقت تک عمران خان کے یہ کارڈ کس حد تک اثر دار رہتے ہیں ۔

کیا کہا تھا عمران خان نے 

اس سال جنوری میں سابق وزیراعظم عمران خان نے شہریوں سے ٹیلی فون پر گفتگو كے ایک لائیو پروگرام میں دعویٰ کیا تھا كہ اگر انہیں قبل از وقت اقتدار سے علیحدہ كیا گیا تو وہ بہت ’خطرناک‘ ہو جائیں گے۔ اور اب قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عمران خان کا وزیراعظم آفس چھوڑدیا ہے۔

سیاسی تجزیہ كار اور مبصرین یہ جانچنے كی كوششں كر رہے ہیں كہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ تو قبل از وقت اختتام کو پہنچی لیکن اب ان کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے؟

اس سلسلے میں احتجاج کی ایک کال تو وہ دے ہی چکے ہیں، جب قوم سے اپنے آخری خطاب میں عمران خان نے اتوار (10 اپریل) کو احتجاج کے لیے نکلنے کی اپیل کی۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم عام انتخابات کی کال بھی دے چکے ہیں اور اپوزیشن سے بھی اس کی تیاری میں لگ جانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کے ذرائع سے شائع ایک خبر کے مطابق تین ماہ میں عام انتخابات کروانا اس کے لیے ممکن نہیں۔

’خطرناک عمران ‘

عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ ان کے حکومت سے نکالے جانے کے بعد وہ زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ كار افتخار احمد كے خیال میں متحدہ اپوزیشن كی تحریک عدم اعتماد كامیاب ہونے کے بعد عمران خان كا ردعمل شدید اور جارحانہ ہو گا۔

 ان كا كہنا تھا کہ ’تحریک عدم اعتماد كے ذریعے گھر بھیجے جانے كے بعد عمران خان كے رویے میں زیادہ تلخی اور تیزی و تندی آئے گی۔

انہوں نے اپنے دعوے كے حق میں عمران خان كے مزاج كو دلیل كے طور پر پیش كرتے ہوئے كہا كہ بطور ملک كے چیف ایگزیكٹو، پاکستان تحریک انصاف كے سربراہ اور حتیٰ کہ كركٹر كی حیثیت سے عمران خان ناكامی كی صورت میں کئی مرتبہ زیادہ جارحانہ موڈ میں نظر آئے۔

بقول افتخار احمد: ’یہ بہت پرانی بات نہیں جب ہم عمران خان كو اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپوزیشن كو سنگین نتائج كی دھمكیاں دیتے دیكھ چكے ہیں۔‘ سینیئر صحافی و تجزیہ كار مظہر عباس نے بھی اس تجزیے سے اتفاق کیا اور کہا کہ اب عمران خان جارحانہ رویہ اپنا سكتے۔

’ابتدائی طور پر ان كو یقیناً تھوڑا بہت دھچکہ لگے گا كہ اگلے انتخابات میں كیسے جانا ہے؟ اسی لیے وہ جارحانہ ہوں گے اور اپوزیشن كے خلاف چور ڈاكو والا بیانیہ استعمال كریں گے۔‘ ساتھ ہی افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ اگر تحریک ناکام ہو جاتی تو عمران خان کے شدید انتقامی موڈ میں آنے كے خدشات تھے۔ ’اگر عمران خان تحریک عدم اعتماد سے بچ جاتے تو ان كے تمام مخالفین اندر ہوتے اور اپوزیشن كو تو وہ اڑا كر ركھ دیتے۔‘

سازش، مذہب کارڈز

پاکستان کے ممتاز تجزیہ کارافتخار احمد کا كہنا ہے كہ موجودہ صورت حال میں عمران خان مذہب كا كارڈ استعمال كریں گے اور حكومت كے خاتمے كو ان كی مذہب اسلام كے حق میں جنگ كا نتیجہ قرار دیں گے۔

ان كے خیال میں عمران خان اپنے اور اپنی حكومت كے خلاف بین الاقوامی سازش كا بھی ذكر كریں گے اور پاكستانی عوام كو باور كرانے كی كوشش کریں گے كہ ان كی منتخب حكومت پاكستان كو باعزت اور خود مختار ملک بنانے كی كوششوں كی پاداش میں ختم كیا گیا۔ عمران خان کے مغرب کے حوالے سے بیانات بالخصوص ان کے جملے  کو پارٹی کے چاہنے والوں میں پذیرائی ملی تھی۔

 اسی طرح سابق وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل اسلام آباد كے پریڈ گراؤنڈ میں عوامی اجتماع میں ایک مبینہ خط لہرا كر اپنی حكومت كے خلاف بین الاقوامی سازش كی موجودگی اور اس میں پاكستان كی حزب اختلاف کے کچھ سیاست دانوں كے ملوث ہونے كی طرف اشارہ كیا تھا۔

تجزیہ كار مظہر عباس كے خیال میں وہ مبینہ خط پر ’ضرور كھیلیں گے اور اپنے ہٹانے میں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ كے مبینہ كردار كا ذكر بار بار كریں گے۔‘ ان كے خیال میں عمران خان کے مذہب اور بین الاقوامی سازش سے متعلق بیانیے كو خیبر پختونخوا میں كافی پذیرائی حاصل ہوگی،

جس كا وہ آئندہ عام انتخابات میں بھرپور فائدہ اٹھانے كی كوشش كریں گے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کی کوشش اس خط یا کیبل تنازعے کو بے وقعت اور بےمعنی قرار دینے کی ہوگی۔ اس بارے میں اس سفارتی کیبل کے مندرجات اگر سامنے آتے ہیں تو بات کچھ واضح ہوگی۔ فواد چوہدری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ابھی اس کیبل کے بارے میں مکمل تفصیلات تو شیئر ہی نہیں کی ہیں۔

عمران خان کا طوفان؟

بلوچستان سے تعلق ركھنے والے سیاسی تجزیہ كار ڈاكٹر عرفان احمد بیگ نے پیش گوئی كی كہ اقتدار ختم ہونے کے بعد عمران خان ایک بالكل مختلف شخصیت كے ساتھ ابھریں گے۔ ان كا خیال ہے کہ:’تحریک عدم اعتماد كی كامیابی كے بعد عمران خان ایک طوفان كی طرح اٹھیں گے اور آئندہ انتخابات میں ماضی سے بہت اچھی كاركردگی  دکھائیں گے۔

اسلام آباد میں تھنک ٹینک پاكستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) كے سربراہ احمد بلال محبوب عمران خان كے مستقبل کو مختلف نظر سے دیكھتے ہیں۔ انہوں نے كہا كہ ابتدائی طور پر عمران خان ضرور جلسے جلوس اور احتجاج كی سیاست كو استعمال كریں گے، جو محدود عرصے كے لیے ہوگی۔ ’عمران خان جلد ہی اپنے ان جذبات پر قابو پا لیں گے اور پھر انتخابات كی تیاری میں لگ جائیں گے، اس كے علاوہ ان كے پاس دوسرا كوئی آپشن نہیں

‘ انہوں نے دعویٰ کیا كہ انتخابی مہم كے دوران عمران خان تلخی كا مظاہرہ كریں گے اور مخالفین اور ریاستی اداروں پر الزامات كی بھرمار كریں گے۔ پلڈاٹ كے سربراہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اقتدار سے باہر ہونے كے بعد حزب اختلاف كی جماعتوں كے علاوہ میڈیا، الیكشن كمیشن آف پاكستان اور دوسرے افراد و اداروں پر اپنے خلاف سازشوں كے الزامات لگا سكتے ہیں۔ احمد بلال محبوب كا كہنا تھا كہ عمران خان ہمیشہ سے پاپولزم كو اپنی سیاست كے بنیادی جزو كے طور پر استعمال كرتے رہے ہیں اور اس مرتبہ بھی وہ اسی طریقے كو استعمال كرنے كو ترجیح دیں گے۔

سپریم كورٹ آف پاكستان كے وكیل اور وی لاگر محمد اظہر صدیق كے خیال میں تحریک عدم اعتماد كے پیچھے مبینہ بین الاقوامی سازش كے انكشاف كے بعد عمران خان كے ہٹائے جانے كو پاكستانی قوم قبول نہیں كرے گی۔ ’میرا اندازہ ہے كہ پاكستانی عوام كی اكثریت اس فیصلے كو نہیں مانے گی اور لوگ بڑی تعداد میں عمران خان كو یوں ہٹائے جانے كے خلاف سڑكوں پر نكلیں گے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان كے ذاتی ردعمل سے متعلق انہوں نے یقین كا اظہار كیا كہ تحریک انصاف كے سربراہ اپنی حكومت كے خاتمے كے خلاف قانونی جنگ لڑیں گے۔ تحریک انصاف كا مستقبل سب سے بڑا سوال عمران خان کی اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے مستقبل کے بارے میں شکوک وشبہات ہیں۔ تحریک انصاف كی حكومت كے خاتمے کے بعد اس جماعت كے مستقبل اور آنے والے عام انتخابات میں اس كی حکمت عملی اور كاركردگی کے متعلق بھی مختلف سوالات اٹھ رہے ہیں۔

پارٹی تتر بتر ہوجائے گی

مظہر عباس كے خیال میں حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد پارٹی میں تنظیمی مسائل اٹھنے كا خدشہ ہے۔ انہوں نے كہا كہ عمران خان اور جماعت كے دوسرے رہنماؤں كو سوچنا ہو گا كہ ان كی جماعت كس طرح اگلے انتخابات میں اچھی كاركردگی دكھا سكتی ہے اور اس سلسلے میں انہیں كافی كام كرنا پڑے گا۔ تاہم تجزیہ كار افتخار احمد كا كہنا تھا كہ پارٹی كے بكھرنے كے قوی امكانات ہیں۔

میرے خیال میں پاكستان تحریک انصاف ایک سال كے اندر اندر تتر بتر ہو جائے گی اور عام انتخابات میں 30 سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں كر پائے گی۔

کئی سینیئر ترین رہنما جو اب تک محض ناراض لیکن خاموش تھے اب کھل کر عمران خان پر حملے کر رہے ہیں۔ ان میں برطرف کیے جانے والے گورنر پنجاب چوہدری سرور اور سابق سینیئر صوبائی وزیر علیم خان پیش پیش ہیں۔ تحریک انصاف کی اے ٹی ایم قرار دیئے جانے والے جہانگیر ترین جس نے تحریک انصاف کی حکومت سازی میں کلیدی کردار ادا کیا، کب کے ناراض اور علیحدہ ہوچکے ہیں۔ یہ سب کافی طاقتور ہیں اور پارٹی کے اندر مزید ٹوٹ پھوٹ میں اہم کردار ادا کرسکے تھیں۔

اس مرتبہ عام انتخابات کی صورت میں تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ صرف اور صرف نظریاتی کارکنوں کو الیکشن لڑنے کے ٹکٹ دے گی، الیکٹ ایبلز کو نہیں۔ ایسے میں عوام اور پارٹی کے حامی اگر کسی ابہام کا شکار ہوئے تو تحریک انصاف کو انتخابات میں شدید نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ وہ شاید تحلیل شدہ قومی اسمبلی کی نشستیں بھی برقرار نہ رکھ سکے۔ ایسے میں پنجاب ان کے ہاتھ سے گیا ہی گیا۔ ایلکٹ ایبلز ہمیشہ چڑھتے سورج کو پوجھتے ہیں۔کیا وہ عمران خان کو اب سپورٹ کرسکیں گے۔

افتخار احمد كے خیال میں صرف بلند و بانگ نعرے بازی كسی كی سیاست كی بنیاد نہیں بن سكتی اور نہ ہی كسی جماعت كی كامیابی كی ضمانت دے سكتی ہے۔ انہوں نے كہا كہ غیر ملكی سازش اور مذہبی كارڈ كو استعمال كر كے پاكستان تحریک انصاف كو انتخابات میں بڑی كاركردگی كی امید نہیں ركھنا چاہیے۔

حریف اب تازہ دم 

عمران خان کو سپریم کورٹ میں شکست کی صورت میں تازہ دم حزب اختلاف کا سامنا کرنا ہوگا۔ اپوزیشن پہلے ہی پارلیمان کے اندر کامیابی کو قریب سے دیکھ چکی تھی۔ اس کو کنٹرول میں رکھنا اب جبکہ وہ حکومت بنا سکے گی، عمران خان کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔  

اپوزیشن جماعتوں کا جو حال عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سال کی حکومت میں احتساب کے نام پر کیا، انہیں جیلوں میں بھیجا، ان کی تذلیل کی اور بلآخر ان تمام الزامات کو ثابت نہیں کرسکے۔

اب اپوزیشن ان سے بدلہ کس صورت میں لے گی دیکھنا باقی ہے۔

ہی خاتون اول بشریٰ بی بی کی قریبی ساتھی فرح خان بدعنوانی کے الزامات کے پیش نظر ملک چھوڑ کر دبئی منتقل ہوگئی ہیں۔

آنے والے دن اب بتائیں گے کہ پاکستان کس جانب جاتا ہے۔ عام انتخابات کے بعد عمران خان کی واپسی ہوتی ہے یا پھر روایتی سیاستداں واپس آتے ہیں ۔اگر ایسا ہوا تو عمران خان کی سیاست کا تو خاتمہ ہو ہی جائے گا ساتھ ہی ان کی پاکستان تحریک انصاف کا بھی نام ونشان مٹ جائے گا۔