پاکستان: 30 ہزار ذہنی مریضوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
پاکستان: 30 ہزار ذہنی مریضوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر
پاکستان: 30 ہزار ذہنی مریضوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر

 

 

اسلام آباد : پاکستان کی وزارت قومی صحت نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کے 30 ہزار 731 مریضوں کے لیے ذہنی امراض کا ایک معالج دستیاب ہے۔ ملک میں مجموعی طور پر قومی ہیلتھ کمیشن سے رجسٹرڈ ذہنی امراض کے معالجین کی کل تعداد 837 ہے۔اردو نیوز کو دستیاب وزارت صحت کی پارلیمنٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور صوبہ پنجاب میں ماہرین نفسیات اور دماغی امراض کے ماہرین کی کل تعداد 412 ہے۔

سندھ میں 235، خیبر پختونخوا میں 127، بلوچستان میں 43، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں 18 اور دو غیر ملکی ماہرین ذہنی امراض موجود ہیں۔وزارت قومی صحت کے مطابق ذہنی امراض کے معالجین کی تعداد کو اگر ملک میں موجود ذہنی امراض میں مریضوں کی تعداد کے تناسب سے دیکھیں تو وفاقی دارالحکومت اور صوبہ پنجاب کے 33 ہزار مریضوں، سندھ کے 20 ہزار 162، خیبر پختونخوا کے 31 ہزار 562، بلوچستان کے 34 ہزار 453 مریضوں جبکہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے 42 ہزار 527 مریضوں کے لیے ایک ایک معالج دستیاب ہے۔

وزارت کا کہنا ہے کہ معالجین کی تعداد کا یہ تناسب گلوبل برڈن ڈیزیز کے متعلقہ صوبوں اور علاقوں میں ذہنی امراض کے موجود مریضوں کے حساب سے نکالا گیا ہے۔رپورٹ میں پاکستان میں ذہنی امراض کے پھیلاؤ کا علاقائی اور عالمی ممالک کے ساتھ موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ وزارت قومی صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ذہنی امراض کے پھیلاؤ کے اشاریے ایشیائی اور دیگر عالمی ممالک کے مقابلے میں کم ہیں۔ پاکستان میں ذہنی امراض میں مینٹل ڈس آرڈر کی شرح 12 اعشاریہ 07 فیصد سالانہ ہے۔ انڈیا میں یہ شرح 10 اعشاریہ 84، نیپال میں 13 اعشاریہ 49، بنگلہ دیش میں 11 اعشاریہ 83 اور افغانستان میں سب سے زیادہ 16 اعشاریہ 25 فیصد سالانہ ہے۔

اسی طرح پاکستان میں ڈپریشن کی سالانہ شرح 3 اعشاریہ 23 فیصد ہے جبکہ انڈیا میں 3 اعشاریہ 69، نیپال میں 4 اعشاریہ 64، بنگلہ دیش میں 4 اعشاریہ 67 اور افغانستان میں 3 اعشاریہ 96 فیصد سالانہ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذہنی امراض کی ایک قسم بے چینی ہے۔ پاکستان میں اس کی شرح 3 اعشاریہ 17 فیصد ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں انڈیا میں 3 اعشاریہ 08، نیپال میں 3 اعشاریہ 29 فیصد، بنگلہ دیش میں 3 اعشاریہ تین اور افغانستان میں 4 اعشاریہ 74 ہے۔

شیزو فرینیا کے معاملے میں بھی پاکستان کے اشاریے ہمسایہ ممالک سے کم ہیں جیسا کہ پاکستان میں شیزو فرینیا کے مریضوں کی سالانہ شرح اعشاریہ 24 ہے، جبکہ انڈیا میں اعشاریہ 30، نیپال میں اعشاریہ 26، بنگلہ دیش میں اعشاریہ 29 جبکہ افغانستان میں اس مرض کی شرح اعشاریہ 17 فیصد ہے۔اگر ان تمام امراض کے پاکستان میں پھیلاؤ کی شرح کا موازنہ عالمی سطح پر کیا جائے تو مینٹل ڈس آرڈر میں پاکستان کے مقابلے میں وسطی ایشیا میں یہ شرح 10 اعشاریہ 74، وسطی یورپ میں 12 اعشاریہ 17، مغربی یورپ میں 15 اعشاریہ 59، امریکہ میں 17 اعشاریہ 02 جبکہ برطانیہ میں 15 اعشاریہ 24 فیصد ہیں۔

اپنی رپورٹ میں وزارت نے ان امراض کو روکنے کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں بھی آگاہ کیا ہے۔ذہنی امراض کے تدارک، علاج اور قومی سطح پر پالیسی سازی کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی وزارت صحت نے نیشنل ایکشن فریم ورک تیار کرلیا ہے۔ اس فریم ورک کے تحت نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ صوبائی سطح پر بھی فیصلے کیے جائیں گے اور ذہنی امراض کو یونیورسل ہیلتھ کوریج پیکج میں شامل بھی کیا جائے گا۔ اس کے تحت ڈپریشن اور بے چینی کا شکار مریضوں کے علاج معالجے کے لیے تھراپی وغیرہ شامل ہوگی۔

ذہنی امراض کی روک تھام کے لیے منشیات کے تدارک اور آگاہی کے حوالے سے نیشنل ٹاسک فورس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جبکہ سارک نے اسلام آباد کے شہری اور دیہی علاقوں میں ذہنی امراض کے علاج اور آگاہی کے لیے 10 لاکھ ڈالر فنڈنگ کی منظوری بھی دی ہے۔ ذہنی تشدد کا شکار عورتوں اور بچوں کے لیے ہیلپ لائن کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔