پاکستان:عمران خان کو7 دن میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 31-08-2022
پاکستان:عمران خان کو7 دن میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم
پاکستان:عمران خان کو7 دن میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم

 


اسلام آباد :پاکستان میں آج ایک بڑا ڈرامہ تھا ،سابق وزیر اعظم عمران خان کی  توہین عدالت کے کیس میں پیشی تھی۔ سب کی نظریں عدالت پر مرکوز تھیں ۔ہزاروں پولیس جوانوں کا بندوبست تھا۔  ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کو سات دن میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں سینیئر قانون دان مخدوم علی خان، منیر اے ملک اور پاکستان بار کونسل کے ایک نمائندے کو عدالتی معاون مقرر کر دیا ہے۔

تشدد کی ریاست نے خود حوصلہ افزائی کی: چیف جسٹس چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ٹارچر کا معاملہ تو ہم نے بھی تین سال بلا خوف اٹھایا، ٹارچر کی تو 70 سال میں ریاست نے خود حوصلہ افزائی کی، ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا کسی شخص کو لاپتہ کرنے سے بڑا کوئی ٹارچر ہوتا ہے؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابصار عالم اور اسد طور کیس میں سب کچھ واضح تھا، اس عدالت نے ہر معاملے کو وفاقی کابینہ کو بھیج دیا تھا، کاش اس وقت ٹارچر والے معاملے پر غور کیا ہوتا تو آج یہ سب نہ ہوتا۔

توقع تھی کہ کہا جائے گا غلطی ہو گئی: چیف جسٹس چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے انہوں نے جوڈیشل کمپلیکس بنایا، مجھے توقع تھی کہا جائے گا غلطی ہو گئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’توقع تھی آپ ان عدالتوں میں جا کر کہیں گے ہمیں آپ پر اعتبار ہے۔‘ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب سے بدترین ٹارچر جبری گمشدگیاں ہیں۔ جس طرح گزرا وقت واپس نہیں آتا کہے گئے الفاظ بھی واپس نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کے قد کے آدمی کو کیا ایسا کرنا چاہیے تھا؟

عدالت پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا

چیف جسٹس چیف جسٹس نے کہا کہ ججز اور عدلیہ پر جتنی تنقید کرنی ہے کریں۔ یہ عدالت کیوں بارہ بجے کھلی؟ سوال اٹھانا آپ کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے پیکا آرڈیننس کا سیکشن 20 کالعدم قرار دیا اگر آج وہ ہوتا تو گرفتاریاں بھی ہوتیں ضمانت بھی نہ ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کے اس وقت کے بیانات آپ دیکھ لیں۔ لیکن یہ عدالت کمزور کے لیے بھی اور چھٹی کے روز بھی 24 گھنٹے کھلی رہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہوں نے بڑے اچھے انداز میں گلہ کیا کاش اسی انداز میں ماتحت عدلیہ کے جج کو بھی مخاطب کرتے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی لیڈر کی بہت حیثیت ہوتی ہے ہر وقت بہت اہم ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کے کسی جج پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔

توقع تھی کہ غلطی کا احساس ہو گیا ہوگا

چیف جسٹس عدالت کی ہدایت پر عمران خان کے وکیل نے تحریری جواب پڑھا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کہا گیا توقع نہیں تھی۔ چیف جسٹس نے حامد خان صاحب سے کہا کہ ’ہمیں بہت خوشی ہے کہ اس اہم معاملے میں آپ یہاں وکیل ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان اور اُن کے وکیل حامد خان سے کہا کہ ’کم از کم آپ کی رائے سے حب الوطنی جھلکنی چاہیے۔ اس معاملے کو سمجھا ہی نہیں گیا۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت نے تشدد کے مسئلے کو اٹھایا ہے۔ سب سے بڑا تشدد اور ٹارچر مسنگ پرسنز اور بلوچستان طلبہ کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والا سلوک ہے۔

عمران خان کی پیشی کے موقع پر ایک ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات

توہین عدالت کے مقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر غیرمعمولی حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ بدھ کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس میں عمران خان ہائیکورٹ میں دن دو بجے کے لگ بھگ پیش ہوں گے۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق پیشی کے موقع پر تین ایس پیز، نو اے ایس پیز اور ڈی ایس پیز سیکورٹی امور کی نگرانی کریں گے جبکہ ہائیکورٹ کے گرد ایک ہزار چھوٹے رینک کے افسران اور اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

تین رکنی فُل بینچ کی تشکیل اور شوکاز نوٹس عمران خان کی تقریر کا نوٹس لیے جانے کے بعد ہائیکورٹ میں تین رکنی فل بینچ نے منگل 23 اگست کو مقدمے کی ابتدائی سماعت کے بعد شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ فل بینچ کی سربراہی جسٹس محسن اختر کیانی نے کی تھی جبکہ ان کے ساتھ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار موجود تھے۔ بینچ نے معاملہ چیف جسٹس کو بینچ میں مزید ججز کے شامل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اب ہائیکورٹ کا پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اس مقدمے کی سماعت کرے گا۔