پاکستان: احمدی ہونے پر چار بچے اسکول سے نکالے گئے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 24-09-2022
پاکستان:: احمدی ہونے پر چار بچے اسکول سے   نکالے گئے
پاکستان:: احمدی ہونے پر چار بچے اسکول سے نکالے گئے

 

 

لاہور:  پاکستان میں احمدیہ طبقہ پر ایک بار پھر ظلم کی نئی کہانی سامنے آئی ہے- اس بار یہ مار پڑی ہے احمدی بچوں پر-  صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک میں ایک نجی اسکول کی برانچ سے چار بچوں کو احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا۔ اسکول سے 22 ستمبر کو جاری سرٹفیکیٹ پر ان بچوں کو نکالنے کی وجہ ’احمدیت‘ تحریر ہے۔ اس سرٹفیکیٹ ر سکول کی پرنسپل کے دستخط اور مہر ثبت ہے۔ا سکول سے نکالے جانے والے بچوں کا تعلق تیسری، چھٹی، نویں اور دسویں جماعتوں سے ہے۔ نکالے گئے تین بچوں کے چچا نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے بچے پہلے کسی اور اسکول میں تھے تو وہاں بھی یہی مسئلہ ہوا تھا۔ ’تب موجودہ پرنسپل نے ہمیں کہا کہ وہ اپنی ذمہ داری پر بچوں کو داخلہ دیں گی۔ اب انہوں نے ہمیں بتایا کہ مقامی لوگ اور اسکول کے کچھ اساتذہ نے ان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔

ان کے مطابق ’گذشتہ ایک ماہ سے بچوں کو اسکول میں اساتذہ اور دیگر طالب علم تنگ کر رہے تھے اور انہیں مذہب کے نام پر ہراساں کر رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک مہینے تک ہمارے بچوں نے یہ سب جھیلا اور اب آکر انہوں نے بچوں کو یہ کہہ کر اسکول سے نکال دیا کہ وہ احمدی ہیں اس لیے وہ اس اسکول میں نہیں پڑھ سکتے۔

انہوں نے بتایا کہ ’نکالے جانے والے بچوں میں دو ان کے ماموں زاد کے بچے ایک چھٹی اور دوسری نویں کلاس میں ہیں جبکہ ایک ان کے چچا زاد کی بیٹی ہے جو دسویں کی طالبہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بچے بہت پریشان ہیں اور ہمیں اب سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔‘ ‘ تاہم اسکول انتظامیہ نے  ایک بیان میں بتایا کہ اس نے ’ناخوشگوار واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے فرنچائز کی جانب سے پالیسی کی خلاف ورزی کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ ‘ ’ہم مذہب، نسل اور نسل سے قطع نظر تعلیمی نظام میں جامعیت کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ا سکول کے پراجیکٹ ہیڈ علی رضا سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ ’ہماری بہت انکلوسیو پالیسی ہے۔ ہمارے ہیڈ آفس سے اس قسم کی کوئی پالیسی شامل نہیں کیونکہ نیٹ ورک ایسوسی ایٹس ہوتے ہیں۔ ’فرنچائزز اپنے طور پر خود اپنی پالیسیز بنا لیتی ہیں یا ہماری طرف سے بھیجی گئی پالیسیز میں کچھ تبدیلی لے آتی ہیں، لیکن ہماری طرف سے ایسی کوئی پالیسی سکول کو نہیں دی گئی۔‘

آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے مطابق جنس یا مذہب کی بنیاد پر کسی شخص کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ ’آرٹیکل 25 اے کہتا ہے کہ پانچ سے 16 سال کے ہر بچے کے لیے مفت اور لازمی تعلیم سرکار کی ذمہ داری ہے۔

 ’آئین پاکستان کے آرٹیکل 22 کے سب آرٹیکل تین کا پارٹ بی کہتا ہے کہ خاص طور پر اگر سرکاری سکول ہے جسے پبلک فنڈ سے کوئی پیسے مل رہے ہیں تو وہاں مذہب کی بنیاد پر کسی سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ’اور اگر اسکول نجی ہے تو انہیں بھی کوئی حق نہیں کہ وہ کسی بچے کو مذہب کی بنیاد پر سکول سے نکال دیں۔‘ ان کے مطابق ’آئین پاکستان کا آرٹیکل 22 سب آرٹیکل تین کا پارٹ اے کہتا ہے: کسی بھی مذہبی برادری یا فرقے کو اس برادری یا فرقے کے شاگردوں کو مذہبی تعلیم دینے سے نہیں روکا جائے گا۔‘