پاکستان : مسجد گرانے کے حکم پرقانون اور مذہبی قیادت میں ٹکراو

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-12-2021
پاکستان : مسجد گرانے کے حکم پرقانون اور مذہبی قیادت میں ٹکراو
پاکستان : مسجد گرانے کے حکم پرقانون اور مذہبی قیادت میں ٹکراو

 


 کراچی : اسلام آباد: پاکستان میں ایک نیا بھونچال آیا ہے،یہ بھونچال پیدا کیا ہے ۔دراصل سپریم کورٹ نے منگل کو کراچی کے علاقے طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد کی جگہ پر پارک کو ایک ہفتے میں  بحال کرنے کا حکم دیا۔مگر اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ قانون اور مذہب قیادت آمنے سامنے ہیں ۔عدالت فیصلے کو غیر شرع قرار دیدیا گیا ہے ۔سیاست بھی شروع ہو چکی ہے۔ ایک نیا ٹکراو شروع ہوچکا ہے ۔ مذہبی تنظیمیں بہت مشتعل نظر آتی ہیں۔ مذہبی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فیصلے پر عملدآمد ہوا تو ملک میں بہت خون خرابہ ہو سکتا ہے۔

جمیعت علمائے اسلام کے رہنما ڈاکٹر راشد محمود سومرو کا ایک ویڈیو خطاب سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، جس میں وہ اس فیصلے کی شدت کے ساتھ مخالفت کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کی لال مسجد سے منسلک شہدا فاؤنڈیشن نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور اسے غیر شرعی قرار دیا ہے۔ جمعیت علما اسلام کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف مذہبی طبقات کا نہیں بلکہ بائیس کروڑ عوام کا ہے اور اگر اس فیصلے پر علمدرآمد ہوا تو ملک میں خون خرابہ ہوگا۔

پارٹی کی شوریٰ کے رکن محمد جلا ل الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' ہم اس فیصلے کی بھرپور مزاحمت کرینگے۔ ملک میں پارکس فحاشی کے اڈے بن چکے ہیں۔ انہیں تعمیر کیا جارہا ہے اور مسجدوں کو گرانے کی بات کی جارہی ہے۔ اگر گرانا ہے تو بنی گالہ کو گرائیں۔ اسلام آباد کے بڑے بڑے غیر قانونی پلازوں کو گرائیں، جن کو ریگو رائزڈ کیا گیا ہے۔ اگر مسجدوں کو گرانے کی کوشش کی گئی تو پورے ملک میں مزاحمت کا طوفان اٹھے گا، جسے کوئی روک نہیں پائے گا۔''

سپریم کوٹ نےکیا کہا ہے؟ 

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مسجد کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کی سربراہی چیف جسٹس گلزار احمد نے کی جس میں کمشنر کراچی اقبال میمن اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے وہاب سے پوچھا کہ انہوں نے “غیر قانونی مسجد” کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی۔ جس پر وہاب نے جواب دیا کہ عدالت حکم دے گی تو کارروائی ہوگی۔

جسٹس احمد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ لوگوں کو دیکھ کر حیران ہوں (اس طرح کا برتاؤ) یہ آپ کا کام ہے پھر بھی آپ ہمارے (عدالت کے) حکم کا انتظار کرتے ہیں۔جسٹس قاضی امی، جو بھی سماعت پر بیٹھے تھے، نے ریمارکس دیئے کہ ایسی مساجد “عبادت کی جگہیں نہیں ہیں” بلکہ “رہائش گاہیں” ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بجلی اور گیس کے بل نہیں ہیں اور یہ معاملہ عدالت کے علم میں لایا گیا ہے، ورنہ کراچی میں کئی اور غیر قانونی تعمیرات ہیں جن پر کوئی اعتراض کرنے والا نہیں۔

سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کراچی کی مسجد پر ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے کیونکہ اب مسجد انتظامیہ نے کہا ہے کہ مسجد کو گرا کر دکھاو۔یعنی قانون اور انتظامیہ کے ساتھ اب مسجد انتظامیہ کا ٹکراو سڑک پر آرہا ہے۔

 کس میں ہے دم 

کورٹ کے کراچی کے طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد کی تعمیرات ختم کر کے پارک کی زمین بحال کرنے کے حکم کے بعد جمیعت علما اسلام کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت مسجد گرانے نہیں دیں۔ جمیعت علما اسلام سندھ کے جنرل سیکرٹری مولانا راشد محمود سومرو نے واٹس ایپ پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو مسجد گرا کر دیکھیں۔ اگر مسجد سلامت نہیں رہی تو آپ کے دفتر بھی سلامت نہیں رہیں گے۔

عدالت نے حکومت کو پارک بحال کر کے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

جمیعت علما اسلام کے مرکزی رہنما اور کراچی کے ضلع کیماڑی کے امیر قاری محمد عثمان نے کہا ہے کہ مدینہ مسجد طارق روڈ کا ہر صورت میں دفاع کیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ ’اپنی جان دے سکتے ہیں، مسجد کی ایک اینٹ بھی گرانے نہیں دیں گے۔ عدالت عالیہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

سیکریٹری اطلاعات جمیعت علما اسلام ضلع کیماڑی کراچی قاضی امین الحق آزاد کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قاری محمد عثمان جے یو آئی کے صوبائی ناظم مالیات مولانا محمد غیاث اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ بدھ کو مدینہ مسجد پہنچے اور نمازیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسجد گذشتہ 41 سالوں سے قائم ہے

بیان کہ مطابق ان کا کہنا تھا کہ ’جس جگہ مسجد بن جائے وہ قیامت کی صبح تک مسجد ہو جاتی ہے۔‘مسجد ہر حال میں مسجد ہے، اسے منتقل کرنا بھی ازروئے شریعت جائز نہیں۔ جب غیرقانونی جگہوں پر بنی عمارتیں ریگیولر ہوسکتی ہیں تو مسجد کیوں نہیں۔قاری محمد عثمان کے مطابق: ’1980 سے قبل یہاں کے رہائشی اور تجارتی حضرات کے لیے نماز ادا کرنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اہل محلہ نے مدینہ مسجد کی تعمیر شروع کی اور جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے الحاق کیا۔‘ ’اس کے بعد ہر سال آڈٹ ہوتا رہا ہے۔ تمام یوٹیلیٹی بلز وغیرہ ادا کیے جاتے ہیں اور ہر سال گوشوارہ آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ رجسٹرڈ کمپنی سے کرایا جاتا ہے۔

قاری محمد عثمان نے کہا کہ پورے ملک میں ذاتی جائیدادیں ریگولرائز ہورہی ہیں تو مساجد میں کیا مسئلہ ہے۔ خدارا اس ملک کو انارکی کی طرف نہ دھکیلا جائے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا بیان

اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس مسئلے پر تحقیق شروع کردی ہے۔ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بتایا ہے کہ اس مسئلے پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ شور ہو رہا ہے۔ لوگ سوالات بھی بھیج رہے ہیں اس لیے میں نے کونسل کے شعبہ تحقیق کو کہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر تحقیق کریں۔ان کا مذید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں،''اس فیصلے پر عملدرآمد کرانا بہت مشکل ہو گا۔ اس کی سخت مزاحمت ہوگی اور مذہبی تنظیمیں اس کی بھر پور مخالفت کرینگی۔'' ڈاکٹر قبلہ کا کہنا تھا کہ جس مسجد کا کراچی میں حوالہ دیا جارہا ہے اس مسجد میں صدر مملکت بھی نماز پڑھتے ہیں۔''تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسجد کو تعمیرات کی اجازت کس نے دی؟ بجلی اور دوسری سہولیات کس نے فراہم کی؟ تو اس طرح کے سارے سوالات پر بات چیت ہونی چاہیے اور تحقیق ہونی چاہیے۔''