پاکستان : 100 بچوں کے قاتل پر بنی فلم پر لگی روک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-01-2022
پاکستان : 100 بچوں کے قاتل پر بنی فلم پر لگی روک
پاکستان : 100 بچوں کے قاتل پر بنی فلم پر لگی روک

 

 

اسلام آباد : پاکستان کی تاریخ کے سب سے ’بڑے سیریل کلر‘ جاوید اقبال کی زندگی پر بننے والی فلم کی ریلیز پنجاب حکومت اور سینٹرل سینسر بورڈ کی جانب سے روک دی گئی ہے۔ فلم ’جاوید اقبال‘ پاکستان بھر میں 28 جنوری کو ریلیز کی جانی تھی تاہم اسے اب روک دیا گیا اور پنجاب حکومت کی جانب سے اس کا نوٹس بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

 نوٹس کے مطابق ’جاوید اقبال: دی ان ٹولڈ سٹوری آف دی سیریل کلر‘ کے حوالے سے موصول ہونے والی شکایات کے بعد اس فلم کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت کے نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ کمیٹی کا فیصلہ آنے تک آپ فلم کو ریلیز نہ کریں۔‘ - تاہم دوسری جانب فلم کے ہدایت کار و مصنف ابو علیحہ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے فلم سینسر بورڈ کو دی ان کے پورے بورڈ نے دیکھی اور فلم کو پاس کر دیا۔‘

 ابو علیحہ نے صحافی حسن کاظمی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کراچی، سندھ اور پنجاب میں فلم منظور ہونے کے بعد ہم فلم کو سینما میں لگانے گئے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں خدشہ تو کیا یقین تھا کہ یہ فلم کبھی بھی کسی صورت بین نہیں ہو گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا جو تحریری مواد ہے وہ میرا ناول ہے۔

 ’اگر آپ اس کو پڑھیں وہ بہت ’دھماکہ خیز‘ ہے۔ ہم نے تو فلم کے سکپرٹ میں اس سے اتنا ہی لیا جسے سینسر بورڈ منظور کر سکے۔‘ ابو ملیحہ کہتے ہیں کہ ’فلم میکر جو فلم بناتے ہیں وہ بناتے ہیں آڈیئنس کے لیے، پبلک کے لیے یا ناقدین اس کو دیکھ کر سراہیں، مگر میں واحد فلم میکر ہوں جس نے سینسر بورڈ کے لیے فلم بنائی ہے۔‘ ’فلم اسی نیت سے بنائی تھی کہ بس لگ جائے تو لوگوں کو اعتماد میں لے کر اس سے کم خطرناک موضوعات پر فلمیں بنا سکیں۔‘

سینسر بورڈ کی جانب سے ریلیز سے ایک دن قبل فلم کو روک دیے جانے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’یہ اب سینسر بورڈ کی شرارت ہے۔ اگر اس وقت پاس نہ کرتے تو سمجھ میں آتا تھا، فلم پاس کرنے کے بعد ایک ماہ انتظار کیا، اور پریمیئر کے بعد ریلیز سے ایک دن پہلے اس طرح سے روک دینا۔‘فلم پر پابندی نہیں لگائی بلکہ روکا گیا ہے کہ فی الحال روک دیں بعد میں دیکھیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں تو لگ رہا ہے کہ کوئی طاقتور ناراض ہو گیا ہے، اور فلم کی جو ہوا بنی ہے اسے خراب کرنا ہے کہ کہیں فلم چار آنے آٹھ آنے نہ کما لے۔‘

فلم کے رائٹر اور ڈائریکٹر ابو علیحہ نے اس حکومتی فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پنجاب فلم سنسر بورڈ کو جب یہ فلم دو ماہ قبل ریویو کے لیے پیش کی گئی تو انہوں نے فلم دیکھنے کے بعد اس کام کو سراہا اور سرٹیفیکیٹ جاری کیا، تاہم وہ سرٹیفیکیٹ اے فلم کا جاری کیا گیا جس کے مطابق یہ فلم بچوں کو دکھائے جانے کے قابل نہیں صرف بڑی عمر کے افراد ہی اس کو دیکھ سکتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ سرٹیفیکیٹ ملنے کے بعد 28 جنوری کی تاریخ رکھی گئی کہ پنجاب بھر کے سنیما گھروں میں اس کی نمائش کی جائے گی اس کا پریمیئر بھی ہوگا۔

خیال رہے کہ جاوید اقبال نامی یہ فلم سندھ میں ریلیز ہوچکی ہے اور کراچی میں اس کا پریمیئر گذشتہ ہفتے ہوا تھا۔ جاوید اقبال نامی کردار پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سال 2000 میں سامنے آیا جب اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے 100 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرکے انہیں قتل کیا ہے اور اس کے بعد ان کی نعشیں تیزاب کے ڈرموں میں جلا دی ہیں۔

اس کردار پر یہ فلم 22 سال بعد بنائی گئی ہے جس میں ان تمام واقعات اور کرداروں کا احاطہ کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے 100 بچوں کے قاتل کی اس کہانی سے جڑے ہوئے ہیں۔ فلم کے ہدایت کار ابو علیحہ کا کہنا ہے کہ ’پنجاب حکومت اس فلم پر پابندی عائد کرسکتی تھی لیکن فلم کو آخری وقت پر نمائش سے روکنے کا اختیار فلم سنسر بورڈ کے پاس نہیں ہے، یہ سراسر غیر قانونی حرکت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ پٹیشن تیار ہوچکی ہے جو کسی بھی وقت دائر کر دی جائے گی لیکن اس سے پہلے ہم انتظار کریں گے کہ حکومت اپنا یہ غیر قانونی فیصلہ واپس لے۔ انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کے پاس اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ فلم کو آخری وقت پر چلنے سے روک دے۔ یہ بات نہ صرف آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے بلکہ ملک کے اپنے قوانین کے بھی خلاف ہے۔

 ابو علیحہ نے بتایا کہ ’فلم سنسر بورڈ پہلے ہی مرحلے پر فلم کو نمائش کی اجازت نہ دیتا تو ہمارے پاس قانونی راستے تھے۔ ہم قانونی طریقے سے ہی اس فلم کی نمائش کا اعلان کرتے ہیں لیکن آخری وقت میں فلم کی نمائش روکنا سراسر زیادتی ہے۔

دوسری طرف فلم سنسر بورڈ نے فلم کی نمائش رکوانے کے حوالے سے کسی طرح کا کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے البتہ مختلف سنیما گھروں کے مالکان نے اردو نیوز کو بتایا کہ واٹس اپ گروپس کے اندر آخری وقت میں فلم کی نمائش روکنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں صرف یہ تحریر درج ہے کہ بورڈ اس فلم کو ایک دفعہ دوبارہ ریویو کرے گا لہٰذا 28 جنوری کو اس کی نمائش نہ کی جائے۔ فلم کے مرکزی کردار یاسر حسین نے انسٹاگرام پر لکھا کہ فلم پر پابندی کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ ’فلم جاوید اقبال میں بولا گیا سچ ہضم نہیں ہوا یا کسی کو شو پر بلانا بھول گئے۔ کیا اس ملک کے سنیما میں صرف کرکٹ میچ اور ٹی وی ڈرامے چلیں گے؟ یا انڈیپینڈنٹ فلم میکرز کو بھی چانس ملے گا؟ جس ملک میں ڈالر قابو میں نہ آرہا ہو وہاں آرٹ کی کیا دھائی دیں، سیڈ ویری سیڈ۔‘

جاوید اقبال کون ؟

 یہ فلم لاہور کے سیریل کلر جاوید اقبال مغل کے جرائم اور ان کے قانونی ٹرائل پر بنائی گئی ہے۔

 جاوید اقبال نے 1999 میں پولیس کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے سو بچوں کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔ خط میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے زیادہ تر بچوں کو گلا گھونٹ کر مارا اور ان کے جسم کے کئی ٹکڑے بھی کیے۔

تاہم بعد میں جاوید اقبال مغل نے 2001 اکتوبر میں لاہور جیل میں خودکشی کر لی تھی۔