مظلوم بلوچ باشندےانصاف کےلئے اسلام آباد کی سڑکوں پر آگئے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
اسلام آباد پریس کلب  کے سامنے دھرنا اور بھوک ہڑتال
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا اور بھوک ہڑتال

 

نئی دہلی۔منصور الدین فریدی

اے اللہ نا پاکستان کو تباہ وبرباد کردے،ان مظلوموں کو رلانے والے دہشت گرد ریاست کو نست ونابود کر دے۔انشااللہ

یہ بدعا ئیں ان بلوچ خواتین کے دل سے نکل رہی ہیں جو اپنے قریبی رشتہ داروں کی جبری گمشدگی کے خلاف ایک لمبی لڑائی لڑ رہی ہیں اور اب بلوچستان سے نکل کر اسلام آباد پہنچ گئی ہیں۔ انصاف کی دہار لگا رہی ہیں اور دنیا کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کررہی ہیں۔ساتھ ہی کل سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹیوٹر“ پر مظلوم بلوچستان کیلئے ایک بڑی مہم بھی چلائی گئی تاکہ دنیا کو زمینی حالات کا علم ہوسکے۔

در اصل پاکستان کے بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کا معاملہ بلوچستان سےاسلام آباد پہنچ گیا ہے۔انصاف کی تلاش میں اب بلوچستان کے متاثرہ خاندانوں نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دیدیا ہے،بھوک ہڑتال شروع کردی ہے۔تاکہ دنیا میں ان کی آواز پہنچ سکے اور انسانی حقوق تنظیموں کے دباؤ سے بلوچستان میں لاپتہ ہوئے افراد کی تلاش اور رہائی کی راہ نکل سکے۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے شامیانہ میں بلوچی باشندوں نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔دو دن گزر جانے کے باوجود حکومت کی جانب سے کسی نے کوئی خبر نہیں لی لیکن ڈنڈوں سے لیس پولیس ضرور نظر آگئی ہے۔اسلام آباد میں دھرنے کا مقصد پاکستانی میڈیا کو جگانا ہے اور ٹیوٹر کی مہم کا مقصد دنیا کو ان حالات کسے واقف کرانا ہے۔تاکہ دباؤ بنایا جا سکے۔غائب یا اغوا کئے گئے افراد کی واپسی کی راہ ہموار ہو سکے۔

Baluchistan

اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنے اور بھوک ہڑتال کا منظر

بلوچستان سے اسلام آباد کا سفر

جبری گمشدگی کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔جس کے سبب سینکڑوں بلوچ خاندان اپنے قریبی رشتہ داروں کو دیکھ پانے سے محروم ہیں۔حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت تو اس معاملہ پر خاموش ہے لیکن ساتھ ہی میڈیا نے بھی آنکھیں موند اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچ کس قسم کی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔

یہ بے بسی ہے اور لاچاری ہے جو انصاف کیلئے بلوچی باشندوں کو ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرکے اسلام آباد آنا پڑا تاکہ ان کی آواز ملک کے کونے کونے تک پہنچ سکے۔بات ایک دو کہانیوں کی نہیں ہے بلکہ یہ ہزاروں درد بھری کہانیوں کا معاملہ ہے۔وردی پوشوں اور خفیہ ایجنسیوں نے ہزاروں ماوؤں کے بیٹے اور بہنوں کے بھائی۔خواتین کے شوہروں کو جبری لاپتہ کردیا ہے۔تاکہ ان سب کی آواز کو دبایا جاسکے۔اب جبکہ دو دن سے یہ بے سہارا بلوچ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دے کر بھوک ہڑتال کررہے ہیں تو بھی سیاستدانوں پر کوئی اثر نہیں ہے۔

Baluchistan

وہ بچے جو اپنے والد کی تلاش میں جوان ہوگئے 

ہر ایک کی درد بھری کہانی

 *امیتاز بلوچ نے اس دھرنے کے بارے میں کہا کہ”۔ کیمپ برائے لاپتہ افراد‘ کا دوسرا دن ہے۔ہم صرف اپنا احتجاج درج کرانا چاہتے ہیں اور وہ بھی پر امن طور پر۔ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری آواز کو طاقت دیں۔تاکہ لاپتہ افراد کی واپسی کا راستہ ہموار ہوسکے۔

ایک خاتون کہتی ییں کہ ”۔ میرے بیٹے دوست محمد بلوچ کو لاپتہ ہوئے نو سال ہوگئے ہیں۔دوست محمد کو 12فروری 2012کو کراچی ایر پورٹ سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے افسران نے اٹھالیا تھا۔

خاتون ماہ گل نے ٹیوٹر پر کہا ہے کہ ”۔میں مہر گل کی بیٹی ہوں۔میرے والدایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ میں اٹھارہ گریڈ کے افسر ہیں۔وہ پچھلے چھ سال سے لا پتہ ہیں۔ہم ان کی بازیابی کیلئے  احتجاجی کیمپ لگائے اور دھرنے دئیے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

عارفہ بلوچ نے اپنے ٹیوٹ میں کہاہے کہ ”۔بلوچستان مدد کیلئے رو رہا ہے۔۔سسک رہا ہے۔برائے مہربانی بلوچستان کے عوام کا درد محسوس کریں۔بلوچی عوام کی مدد کریں اس سے قبل کہ زیادہ دیر ہوجائے۔

* بلوچ خاتون نے کہا کہ ”۔ میری والدہ صرف اس لئے کیمپ میں شرکت کیلئے آئی ہیں کہ حکومت سے دریافت کرسکیں کہ آخر ان کا قصور کیا ہے۔،کون ہمارے درد کا جواب دی گا؟جن کے رشتہ دارلاپتہ ہیں انہیں کون جواب دے گا؟ایسی ایسی کہانیاں سامنے آرہی ہیں کہ روح کانپ جائے۔ ایسے بچے بھی سامنے آئے ہیں جو اپنے والدین کی تلاش کرتے کرتے جوان ہوگئے ہیں۔ اپنے والدکو تلاش کرنے میں ان کا بچپن گم گیا۔

دنیا کی سب سے بد قسمت قوم

*ایک نوجوان حافظ شہزاد نے ٹیوٹر پر لکھا ہے کہ

”۔پتہ نہیں ہم شاید دنیا کے وہ  بد قسمت قوم ہیں اگر ظلم کے خلاف بات کرے تو لاپتہ۔۔۔اگر اداروں کے خلاف بات کرے  تو خدارا۔۔اگر حقیقی اسلام کی بات کریں تو کافر۔اور اگر ملاؤں کے خلاف بات کرے تو انڈیا کے ایجنٹ۔اگر بہت زیادہ بات کریں تو جہنمی۔‘

فاضلہ بلوچ نامی خاتون نے ٹیوٹر پر لکھا ہے کہ ”۔جبری گمشدگی کے سبب ہزاروں خاندانوں کی خوشیاں ختم ہو گئی ہیں۔*پختونخواہ  ملی عوامی پارٹی کے انور ککر اور عثمان ککر نے بھی اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج میں شرکت کی اور لاپتہ مافراد کو واپس لانے کا مطالبہ کیا۔

اس مہم کے دوران کچھ ایسے نام بھی شامل آئے ہیں جن کی کئی سال کی گمشدگی کے بعد واپسی ہوئی ہے جو مسلسل دباؤ کا نتیجہ ہے۔

ایک اور صارف قادر بلوچ نے ٹیوٹر پر دھرنے کے فوٹو کے ساتھ لکھا ہے کہ ”

 یہ تصویر ان کے منھ پر طمانچہ ہے جو کہتے ہیں کہ بلوچ افراد کو انصا ف مل گیا۔آج حالات یہ ہیں کہ ہماری ماں بہنیں انصاف کیلئے گھروں سے دور اسلام آباد کی سڑک پر بیٹھی ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر اترنے کے بعد بلوچی باشندوں کو کیا حاصل ہوتا ہے۔ انصاف کی امید تو کم ہی ہے مگر مظالم میں اضافہ ہونے کا ڈر ضرور ہے۔