عمر شریف: ایک کامیڈین کی زندگی کی ٹریجڈی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-10-2021
'عمر شریف: زندگی 'کامیڈی' اور موت 'ٹریجڈی
'عمر شریف: زندگی 'کامیڈی' اور موت 'ٹریجڈی

 

خراج عقیدت

آواز دی وائس : پاکستان کے مزاحیہ فنکارعمر شریف دنیا کو الوداع کہہ گئے۔دنیا کو ہنسانے والا آخر میں سب کو رلا گیا۔ایک ایسا فنکار جس کی مقبولیت نے سرحدوں کو مٹا دیا تھا۔ جو اس وقت مقبول ہوا تھا جب نہ انٹر نیٹ تھا اور نہ سوشل میڈیا۔ اس کے مزاحیہ پروگراموں کے آڈیو کیسٹ اور ویڈیو کیسٹ کا سیلاب دنیا کے کونے کونے میں مقبولیت پھیلا گیا تھا۔ 

کل امریکہ کے سفر کے دوران جرمنی میں رکنے پر مجبور ہوئے عمر شریف نے آخری سانس لی اب ان کی جسد خاکی کا پاکستان کو انتظار ہے۔ تعزیت کا دور جاری ہے۔ ان زندگیم کے مختلف پہلوو ں کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے ویڈیوز کا سیلاب آگیا ہے ۔ سماج ،سیاستدانوں ،حکومت اور مذہبی ٹھیکیداروں پر ہنستے ہنستے بڑی بڑی چوٹیں اب کی خدا داد صلاحیتوں کا نمونہ بنی ہوئی ہیں ۔

ایک زندگی ان کی اسٹیج پر گزری  جبکہ ایک زندگی اسٹیج کے پیچھے۔کہیں تو قہقہے تھے اور کہیں آنسو اور پریشانیاں جنہوں نے ایک فنکار کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔

آئیے !ڈالتے ہیں ایک نظر عمر شریف کی زندگی کی کہانی یا سفر پر۔ 

کراچی کے چودہ سالہ بچے نے تھیٹر کی دنیا کہلانے والے ’’آدم جی ہال‘ کے کینٹین میں لوگوں کو چائے پلاتے ہوئے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہی سے اس کی قسمت کا دروازہ کھلے گا جو اسے دنیا میں کامیڈی کا کنگ بنا دے گا۔

کہتے ہیں کہ ایک ڈرامہ شروع ہونے سے قبل اصل کردار کو ہی ہنگامی طور پر گھر جانا پڑ گیا۔ معاملہ ہی ایسا تھا کہ اس کو روک پانا ممکن نہیں تھا۔ ڈرامے کے شروع ہونے میں صرف دو گھنٹے رہ گئے تھے اور ان کے اہم فنکار اے کے پٹیل بیوی کی وفات کی خبر ملتے ہی گھر کو چل پڑے تھے۔تھیٹر ڈائریکٹر صمد یار خان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

اس وقت کسی نے ان کے کان میں کہا کہ کینٹین میں کام کرنے والا لڑکا اس خلا کو پر کرسکتا ہے کیونکہ وہ کینٹین میں چائے کی خدمت کے ساتھ مزاح بھی کیا کرتا تھا جس کے سبب لوگ اس کی جانب متوجہ رہا کرتے تھے۔ 

پروڈیوسر نے ڈرامے کو پیش کرنے کی غرض سے عمر شریف کو وہ کردار نبھانے کی پیشکش کی۔ عمر کم تھی مگر حوصلہ بلند تھا، لہٰذا انہوں نے اس کردار کو بخوبی نبھالیا جس کے صلے میں 5 ہزار روپے کیش، ایک موٹر سائیکل اور ایک سال کا مفت پیٹرول انعام میں ملا لیکن اس سے بھی زیادہ بیش قیمت تحفہ وہ کریئر تھا جس نے ان کو غربت سے نکال کر خوشحالی کی بانہوں میں سمیٹ لیا تھا۔

 اس کے بعد اس بچے نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا

ایسا چلا کہ زندگی دوڑ پڑی۔ اس کانام چمکا،چہرہ مقبول ہوا اور اس کے فقرے اور ڈائیلاگ ہر کسی کی زبان پر آگئے۔

عمر شریف 19 اپریل 1955 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے تھے۔عمر شریف نے پاکستان میں اسٹیج ڈراموں کے ذریعے جس انوکھی طرز کی کامیڈی تخلیق کی اس نے مزاح گوئی کا سارا منظرنامہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اسٹیج کامیڈی باقاعدہ ایک میڈیم بن گیا تھا۔ ایسا دور تھا جب سوشل میڈیا تھا اور نہ ہی ٹی وی ۔

وی سی آر اور وی سی پی کے دور میں کیسٹ کازمانہ تھا۔ لوگوں ان کے ڈراموں کے کیسٹ کے لیے لڑ بھڑ جاتے تھے ۔ خریدنا ممکن نہیں تھا اس لیے کرائے پر کیسٹ لا کر ڈرامہ دیکھے جاتے تھے۔ چند سال کے دوران ہی عمر شریف کی مقبو لیت نے ایسی اڑان بھری کہ دنیا بھر میں لوگ دیوانے ہوگئے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان ٹیلی ویژن پر ’’ففٹی ففٹی‘‘ اور ریڈیو پاکستان پر ’’مسٹر جیدی‘‘ جیسے پروگراموں کا راج تھا۔ اسٹیج اور اسٹینڈ اپ کامیڈی میں سلیم چھبیلا مرحوم کا نام عروج پر تھا جبکہ ٹی وی اسکرین پر سلیم ناصر، معین اختر اور جمشید انصاری جیسے ورسٹائل اداکار چھائے ہوئے تھے جو صرف کامیڈین ہی نہیں تھے بلکہ کسی بھی طرح کا کردار نباہنے کا فن بخوبی جانتے تھے۔

یہی وہ زمانہ تھا کہ جب اسٹیج کامیڈی میں ’’عمر شریف‘‘ کا نام ابھرنا شروع ہوا۔ یہ غالباً 1982 کا سال تھا کہ جب عمر شریف کے لطیفوں والی پہلی کیسٹ مارکیٹ میں آئی۔

 عمر شریف کے کیریئر پر نظر ڈالی جائے تو پہلی چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس وقت شہرت حاصل کی جب کامیڈین معین اختر، اسماعیل تارا اور ماجد جہانگیر انتہائی مقبول تھے۔

بغیر اسکرپٹ کی کامیڈی

کامیڈین بننا آسان نہیں ہوتا ہے، اگر آپ تحریر شدہ اسکرپٹ پڑھ رہے ہیں تو اس میں بہت دم نہیں ہوبسکتا کیونکہ انداز اور مزاج بہت اہمیت رکھتا ہے۔لیکن عمر شریف نے اس فن کو ایک نیا رنگ دیا تھا،عمر شریف کی کامیڈی میں سب سے اہم بات جس کو محسوس کیا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ بغیر اسکرپٹ کے مزاح تخلیق کیا۔ وہ حاضر دماغ تھے، ان کا پورا کریئر اسی صلاحیت پر محیط رہا اور یہ صلاحیت ان کو اپنے والدین سے ورثے میں ملی کیونکہ وہ بہت برجستہ گفتگو کرتے تھے۔

 در حقیقت پاکستان میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کی ایک پوری تاریخ ہے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی سے شروع ہونے والے اسٹیج ڈراموں کے ذریعے اس طرز کی کامیڈی کا آغاز ہوا۔

 عروج کا دور

ایک پاکستانی تجزیہ کارکہتے ہیں کہ عمر شریف کی ’’سڑک چھاپ‘‘ کامیڈی کو پاکستان میں ’’فنونِ لطیفہ کی اشرافیہ‘‘ نے شدید ناپسند کیا کیونکہ اپنی کامیڈی میں عمر شریف نے بہت سے ایسے الفاظ بکثرت استعمال کیے تھے جو اُن دنوں ’’معیوب‘‘ اور ’’بازاری‘‘ سمجھے جاتے تھے کیونکہ غریب غرباء کے محلّوں میں بولی جانے والی زبان یہی تھی۔ اسی غریب اور متوسط طبقے نے عمر شریف کی آڈیو کیسٹوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری کیسٹ مشہور ہوئی… اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عمر شریف کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔

 عمر شریف نے بہت تیزی سے عروج پایا لیکن ان کے کیر ئیر کو چار چاند لگانے کا کام جس ڈرامہ نے کیا اس کو ‘بکرا قسطوں پہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔بکرا قسطوں پہ' عمر شریف کا وہ ڈراما تھا جس کی وجہ سے وہ عالمگیر شہرت کے حامل ہوئے۔ اس ڈرامے کے 5 حصے بنائے گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ ڈراما حادثاتی طور پر لکھا کیونکہ ان کا وہ ڈراما جس کو اسٹیج ہونا تھا عین وقت پر پابندی کا شکار ہوگیا۔ صرف 2 دن کی مہلت تھی، جس میں یہ ڈراما لکھا اور پرفارم بھی کیا گیا۔ پھر اسی ڈرامے کی تھیم میں سے ان کا ایک اور مشہورِ زمانہ ڈراما نکلا جس کا نام 'بڈھا گھر پہ ہے۔عمر شریف کے مقبول اسٹیج ڈراموں میں 'میری بھی تو عید کرادے'، یہ ہے نیا تماشہ' یہ ہے نیا زمانہ' اور 'بڈھا گھر پر ہے' شامل ہیں۔ انہوں نے 50 سے زائد اسٹیج ڈراموں میں کام کیا تھا۔

فلموں میں عمر شریف

 عمر شریف چونکہ فلموں سے ہمیشہ متاثر تھے اس لیے فلمی صنعت کا رُخ بھی کیا اور فلمیں بنانے کے ساتھ ساتھ ان میں کام بھی کیا۔ اس تناظر میں ان کی مقبول فلم 'مسٹر 420' ہے۔ عمر شریف نے پاکستانی فلمی صنعت میں بھی کافی کام کیا۔ کچھ فلموں میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے جبکہ کچھ میں صرف اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی چند نمایاں فلمیں، جن میں انہوں نے ہدایت کاری کی اور جن کو لکھا بھی، ان میں مسٹر 420 (1992ء)، مسٹر چارلی (1993ء) اور مس ٹربل سم (1993ء) شامل ہیں۔

ان کی دیگر فلمیں جن میں انہوں نے صرف اداکاری کی ان میں سب سے بڑا رپیا، حساب، کندن، خاندان، لاٹ صاحب، مستانہ ماہی، ایکٹر، البیلا عاشق، بت شکن، ڈاٹر، مس فتنا، نہلادہلا، غنڈہ راج، چلتی کا نام گاڑی، ہتھکڑی اور پیدا گیر شامل ہیں۔

ذاتی زندگی کا المیہ

جو انسان دنیا کو ہنساتا تھا ،جس کو دیکھ کر لوگ لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے ،وہ اپنی زندگی میں بکھرا ہوا تھا۔اس کے زوال کا ایک سبب بھی یہی تھا۔ عمر شریف کو نہ تو انٹر نیٹ نے نقصان پہنچایا اور نہ ہی کسی نیٹ ورک نے ۔ یہ ان کی زندگی کے نشیب و فراز تھے جن سے وہ باہر نہیں آسکے۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ عمر شریف اپنی پروفیشنل زندگی کو ذاتی زندگی سے الگ نہیں رکھ پائے۔

 عمر شریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی بیگمات کے نام دیبا عمر، شکیلہ قریشی اور زرین غزل ہیں، صرف پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے ہیں، انہی سے ایک بیٹی تھی جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کے ایک قریبی دوست اور ساتھی اداکار شرافت علی شاہ کے خیال میں 'عمر شریف کی بیماری کے پیچھے اصل وجہ ذہنی دباؤ تھی۔

  واپسی کیوں رہی پھیکی

یہی وجہ ہے کہ جب وہ کئی برسوں کے بعد 2019ء میں دوبارہ تھیٹر کی طرف لوٹے اور کراچی میں 'واہ واہ عمر شریف' پیش کیا گیا تو وہ تنقید کا شکار ہوا۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ عمر شریف کی ناساز طبیعت تھی۔

 مصور اور مصنف بھی

 ان تمام مسائل کے باوجود وہ ثابت قدم رہے، خود کو ذہنی اور تخلیقی ارتقائی مراحل سے گزارا۔ تھیٹر سے ہٹ کر خود کو دوسری جہتوں میں دریافت کرنے کی سعی کرنے لگے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں وہ روحانیت سے کافی قریب ہوگئے تھے اور لکھنے پڑھنے سے بہت شغف بڑھ گیا تھا۔ انہوں نے 5 کتابیں بھی لکھیں جو شائع تو ہوگئیں لیکن ان کی رونمائی ہونا باقی تھی۔

ان کتابوں میں پہلی کتاب 'فبای آلاء ربکما تکذبان' ہے جو روحانیت کے موضوع پر ان کی پہلی تصنیف ہے۔ دوسری کتاب ان کے ڈراموں اور تیسری کتاب ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ پھر چوتھی کتاب شعری مجموعہ کلام اور پانچویں کتاب مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہے۔

عمر شریف کو مصوری سے بھی ہلکا پھلکا شغف تھا اور آنے والے دنوں میں وہ ایک اور نئی فلم بنانا چاہ رہے تھے جس کی موسیقی بھی انہوں نے خود ترتیب دی تھی۔ انہوں نے فلاحی کاموں کے لیے بھی خود کو وقف کر رکھا تھا۔

 وقت کے ساتھ چلے عمر شریف

جب الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا تو وہ کراچی واپس آگئے تھے، انہوں نے مختلف پلے کیے، اور ٹاک شوز کی میزبانی کی، انہوں نے نجی چینل جیو ٹی وی پر 'دی شریف شو' کی میزبانی بھی کی۔

 وہ 'ففٹی ففٹی'، 'پردہ نہ اٹھاؤ' ،' عمر شریف ورسز عمر شریف ' جیسے ٹی وی شوز کا حصہ بھی رہے۔

 ہندوستان میں مقبولیت

 انہوں نے ہندوستان کے کامیڈی شو 'دی گریٹ انڈین لافٹر چیلنج ' میں نوجوت سنگھ سدھو اور شیکھر ثمن کے ساتھ مہمان جج کے فرائض بھی سرانجام دیے تھے۔ وہ ہندوستان میں بھی بے حد مقبول تھے، جونی لیور اور راجو شریواستو جیسے کامیڈینز انہیں' ایشین کامیڈین کا شہنشاہ ' قرار دیتے تھے۔ وہ مختلف ایوارڈز اور نمائشوں میں شرکت کے لیے ہندوستان آتے رہے اور عوام کو بھی اپنے فن سے محظوظ کیا۔

پاکستان میں عمر شریف کو 1992 میں 'مسٹر 420' کے لیے بہترین اداکار اور ہدایت کار کے نیشنل ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے10 نگار ایوارڈ حاصل کیے اور ایک ہی برس میں 4 نگار ایوارڈز حاصل کرنے کا اعزاز بھی پایا۔ اپنے فن کے ذریعے ملک کا نام روشن کرنے پر ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے عمر شریف کو تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔