پاکستان :تین ممالک میں سفیر نہیں، رہائش گاہوں پر پانچ کروڑ خرچ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
پاکستان :تین ممالک میں سفیر نہیں، رہائش گاہوں پر پانچ کروڑ خرچ
پاکستان :تین ممالک میں سفیر نہیں، رہائش گاہوں پر پانچ کروڑ خرچ

 


اسلام آباد: پاکستان جس کی اقتصادی حالت پتلی ہے جو گلے تک قرضے میں ڈوبا ہوا ہے۔ جہاں مہنگائی تمام حدوں کو پار کررہی ہے۔اس ملک میں حکمرانوں کے شاہی اخراجات ہمیشہ سے ایک تنازعہ رہے ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا نیا معاملہ سامنے آتا ہے جو عوام کے لیے صدمہ سے کم نہیں ہوتا ہے ۔اب ایک بار پھر ایک معاملہ سامنے آیا ہے۔ پاکستان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران تین ممالک میں سفیر نہ ہونے کے باوجود رہائش گاہ کرائے پر رکھنے سے پانچ کروڑ 98 لاکھ روپے کا نقصان ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کے علاوہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق مختلف پاکستانی مشنز میں منظوری کے بغیر سٹاف کی بھرتی سے خزانے کو سات کروڑ 29 لاکھ روپے کا نقصان بھی ہوا۔

 

رانا تنویر کی صدارت میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں وزارت خزانہ کو معاملہ ریگولرائز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے کمیٹی روم میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں وزارت خارجہ کی آڈٹ رپورٹ 20-2019 زیر غور آئی، جس کے مطابق پاکستانی مشنز میں ایک ارب 40 کروڑ روپے کے اضافی فنڈز دستیاب ہیں لیکن انہیں کہیں سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔

اس انکشاف پر سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے جواب دیا کہ ہر ملک میں اضافی فنڈز کی سرمایہ کاری نہیں کی جا سکتی کیونکہ کچھ رقم مشنز میں ہر وقت دستیاب ہونی چاہیے۔ کمیٹی کی رکن سینیٹر شیری رحمان نے اس موقع پر کہا کہ لندن مشن میں 27 لاکھ پاؤنڈ کے فنڈز دستیاب ہیں، جسے سرمایہ کاری میں استعمال کر دیا جاتا تو بہت فائدہ ہوتا۔

سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے کہا کہ پاکستانی مشنز کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ 80 فیصد سرپلس فنڈ کو منافع بخش سکیموں میں لگایا جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سرپلس فنڈ کو پراپرٹی خریدنے پر بھی خرچ کیا جاتا ہے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ مختلف پاکستانی مشنز میں منظوری کے بغیر سٹاف کی بھرتیوں سے سات کروڑ 29 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ تین ممالک میں سفیر نہ ہونے کے باوجود رہائش گاہ کے کرائے سے بھی خزانے پر اضافی بوجھ پڑا ہے۔

اس معاملے پر سیکریٹری خارجہ نے جواب دیا کہ سفیروں کی تبدیلی کے عمل میں کئی مرتبہ اضافی وقت لگ جاتا ہے لیکن رہائش گاہ کو کچھ ماہ احتیاطً رکھا جاتا ہے۔ آڈٹ حکام کا مزید کہنا تھا کہ سنگاپور میں نو، سراجیوو میں 19 اور الجیریا میں نو ماہ کوئی سفیر نہیں تھا اور اس تمام عرصے میں رہائش گاہیں موجود تھیں جن کے کرائے کی مد میں خطیر رقم جاتی رہی۔

اس اعتراض پر سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ ’اب ہم نے قواعد تبدیل کر لیے ہیں سفیر کی عدم موجودگی میں صرف تین ماہ رہائش رکھی جائے گی، طویل عرصہ سفیر کی تعیناتی نہ ہونے پر تین ماہ بعد رہائش گاہ خالی کر دی جائے گی۔‘ اجلاس میں پاکستان کا سوفٹ امیج اجاگر کرنے کے لیے چینی یونیورسٹیوں کو تین کروڑ 72 لاکھ روپے دینے کا معاملہ بھی زیر غور آیا جس پر آڈٹ حکام نے کہا کہ یہ رقم یونیورسٹیوں کو تقسیم ہی نہیں کی گئی۔‘

اس کے جواب میں سیکریٹری خارجہ نے جواب دیا کہ بیشتر رقم آڈٹ پیرا بننے کے بعد تقسیم کی جا چکی ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں وزارت خارجہ کے کارکردگی پر پہلے دس نمبروں میں نہ آنے پر بھی ازراہ مزاح بات ہوئی۔

پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ وزارت مواصلات کو بہترین کارکردگی کا ایوارڈ ملا لیکن دفتر خارجہ کو کوئی ایوارڈ نہیں ملا ایسا کیوں ہوا؟

جس پر چیئرمین کمیٹی رانا تنویر نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ مجھے بھی اندر کروانا چاہتے ہیں۔‘ اسی پر مشاہد حسین سید نے جواباً کہا کہ ’صرف اندر نہیں ہوں گے بلکہ مار بھی پڑے گی۔‘ جبکہ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’خاموش رہیں نوید قمر صاحب، ایف آئی اے والے اٹھا کر لے جائیں گے۔‘