’اخلاقی پولیس‘ ختم کر دی گئی: ایرانی اٹارنی جنرل

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
’اخلاقی پولیس‘ ختم کر دی گئی: ایرانی اٹارنی جنرل
’اخلاقی پولیس‘ ختم کر دی گئی: ایرانی اٹارنی جنرل

 

 

تہران: ایران کی قدامت پسند حکومت نے ملک میں دو ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد اخلاقی پولیس ختم کر دی ہے۔ الجزیرہ ڈاٹ کام کے مطابق ایرانی اٹارنی جنرل محمد جعفر المنتظری نے کہا ہے کہ ملک میں اخلاقی پولیس کی کارروائیاں معطل کر دی گئی ہیں۔

انہوں نے ہفتے کو ایک تقریب سے خطاب کیا جس میں ’حالیہ مظاہروں کے دوران ہائبرڈ جنگ کے بارے میں بتایا گیا۔‘ فرانسیسی مقامی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اخلاقی پولیس کی کارروائیاں ختم کر دی گئی ہیں۔

ایران میں مظاہروں کا سلسلہ ملک میں خواتین کے لیے لباس کے سخت ضوابط کی مبینہ خلاف ورزی پر اخلاقی پولیس کی جانب سے گرفتار کی گئی مہسا امینی نامی خاتون کی 6 ستمبر کو دوران حراست موت کے بعد شروع ہوا تھا۔

ایران میں ستمبر کے وسط سے جاری کشیدگی اورمظاہروں کے خلاف سیکورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں 448 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس گروپ کی رپورٹ میں تعداد کی تصدیق کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں میں 60 بچے 18 سال سے کم عمر ہیں جب کہ 9 لڑکیاں اور 29 خواتین بھی شامل ہیں۔

گذشتہ ہفتوں میں مظاہروں میں شدت آنے سے ہلاکتوں کی اس تعداد کی تصدیق کی گئی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے ارکان شامل نہیں۔ قبل ازیں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بریگیڈیئرجنرل امیرعلی حاجی زادہ نے کہا تھا کہ 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جو کہ حکام کی جانب سے پہلی بار اس تعداد کا اعتراف ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی حقوق کونسل نے گزشتہ ہفتے ایران میں کریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی فیکٹ فائنڈنگ مشن کے قیام کے لیے ووٹ دیا ہے۔

ایرانی حکام نے خواتین کی زیر قیادت ہونے والے مظاہروں کو ’فسادات‘ قرار دیتے ہوئے ان کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ کا الزام لگایا تھا۔ ایران کے خبر رساں ادارے اسنا کے مطابق اٹارنی جنرل محمد جعفر المنتظری کا کہنا ہے: ’اخلاقی پولیس کا عدلیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایران نے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور کرد گروہوں پر ملک میں ’ہنگامے‘ کروانے کا الزام لگایا ہے۔ ایرانی پاسدرانِ انقلاب کے ایک جنرل نے رواں ہفتے پہلی مرتبہ کہا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جاری ہونے والے مظاہروں میں تین سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم ناروے کے شہر اوسلو میں موجود ’ایران ہیومن رائٹس‘ نے منگل کو کہا کہ ان مظاہروں میں سکیورٹی فورسز نےکم از کم 448 افراد کو ہلاک کیا ہے۔

اٹارنی کے مطابق کہ اخلاقی پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے اسی جگہ روک دیا گیا جہاں سے ماضی میں اس کا آغاز ہوا تھا۔ وہ مبینہ طور پر اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ اخلاقی پولیس کو کیوں ختم کیا گیا۔

کوئی دوسری تصدیق نہیں ہوئی کہ گشت کرنے والی پولیس کے یونٹ جنہیں سرکاری طور پر معاشرے میں ’اخلاقی سلامتی‘ کی ذمہ داری دی گئی ہے، انہیں ختم کر دیا گیا ہے، نہ ہی منتظری نے یہ بتایا کہ اخلاقی پولیس کو غیر معینہ مدت کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔ اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ قانون جس کے تحت خواتین کے لیے مخصوص لباس زیب تن کرنا لازمی ہے، اسے ختم کر دیا جائے گا۔

ایران کی اخلاقی پولیس، جسے رسمی طور پر گشت ارشاد یا ’رہنما پیٹرول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں قائم کی گئی تھی، اور اس کا مقصد ’حیا اور پردے‘ کے کلچر کو فروغ دینا تھا جس کے تحت خواتین کے لیے سر ڈھانپا لازمی ہے۔ اخلاقی پولیس نے 2006 میں گشت کرنا شروع کیا۔

فورس کے خاتمے کا اعلان منتظری کے بیان کے ایک دن بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پارلیمان اور عدلیہ حجاب سے متعلق قانون پر کام کر رہی ہے کہ آیا اس (خواتین کو سر ڈھانپنے خواتین کے سر کو ڈھانپنے سے متعلق) قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسانی نے ہفتے کو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے بیان میں کہا تھا کہ ایران کی جمہوری اور اسلامی بنیادیں اس کے آئین میں ہیں۔ ’لیکن آئین کو نافذ کرنے کے ایسے موجود ہیں جن میں لچک ہو

ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد خواتین کے لیے حجاب کو لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس انقلاب کے ذریعے امریکی حمایت یافتہ بادشاہت کا خاتمہ کر کے ملک میں اسلامی جمہوریہ قائم کیا گیا۔ 15 سال قبل ابتدا میں اخلاقی پولیس افسران کارروائی یا گرفتاری سے پہلے خواتین کو وارننگ دیا کرتے تھے

سابق ایرانی صدر حسن روحانی کے دور میں حجاب کے حوالے سے اتنی سختی نہیں تھی۔ بہت سی خواتین تنگ جینز اور ڈھیلے ڈھالے اور رنگ برنگے حجابوں میں نظر آئیں۔ لیکن رواں برس جولائی میں ایرانی صدر ابراہیم ریئسی نے اس قانون کو سختی سے لاگو کرنے کا حکم دیا۔ تاہم بہت سی خواتین نے اس قانون کی پاسداری نہیں کی تھی۔