کشمیرپر میٹنگ: بغلیں جھانکنے پر مجبور پاکستانی میڈیا

Story by  عبدالحئی خان | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ایک یادگار لمحہ تصویر
ایک یادگار لمحہ تصویر

 

 

عبدالحئی خان/آواز دی وائس : نئی دہلی

کل دہلی میں جموں و کشمیر پر آل پارٹی میٹنگ آج دنیا بھر میں سرخیوں میں رہی،حکومت کے ایک مثبت قدم پرکشمیری سیاستدانوں نے بھی بڑھا دئیے قدم۔اب وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک پیغام دیدیا ہے کہ سب ساتھ آئیں کشمیرکی ترقی کےلئے کام کریں ۔ اس کے ساتھ انہوں نے کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے بارے میں بھی کہہ دیا کہ حدبندی کے بعد یہ جمہوری عمل کا استعمال ہوگا۔ میٹنگ بہت دوستانہ اور خوشگوار ماحول میں ہوئی۔سب مطمین رہے۔سب نے اس کو ایک مثبت قدم مانا۔سب خوشی خوشی واپس لوٹ گئے۔مگر سرحد پار خاموشی ہے۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مایوسی ہے۔ سناٹا ہے۔

 پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو نظر انداز کیا یا اس کو نمایاں طور پر پیش نہیں کیا۔ اول تو کشمیری لیڈران کی شرکت اور سب کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ ریاست کی ترقی پر ایک رائے ہونا پاکستان کےلئے کہیں نہ کہیں تکلیف دہ ہورہا ہے۔ اس میٹنگ سے قبل پاکستان نے حریت کانفرنس کو نظر انداز کئے جانے کا رونا رویا تھا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ یہ میٹنگ بے معنی ہوگی۔ مگر ہوا کچھ اور۔

 آج پاکستان کے روزنامہ ’ڈان‘ نے اس خبرکو اہمیت نہیں دی اور صرف غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے حوالے سے لکھا کہ ۔۔۔بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد پہلی مرتبہ کشمیری سیاست دانوں کے ساتھ اہم اجلاس ہوا لیکن اس میں کسی اہم فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا۔خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق اجلاس کے بعد کسی اہم فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا اور متعدد کشمیری رہنماؤں نے کہا کہ انہوں نے بھارت پر 2019 میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس لینے پر زور دیا۔

 اسی طرح ’’جیونیوز‘‘ نے ہمت نہیں ہاری اخبار نے خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی۔دہلی میں خوشگوار ماحول میں بات چیت اور مشاورت کو ’مطالبہ‘بنا کر پیش کیا۔محبوبہ مفتی کو بڑی اہمیت دی کیونکہ انہوں نے کشمیر پر پاکستان سے بات کرنے کا زور دیا تھا۔ اخبار مذکورہ نے لکھا ہے کہ ۔۔ ’’کشمیر پر مودی سرکار کی چال ناکام ہوگئی اور وادی میں رچایا جانے والا نیا ڈرامہ فلاپ ہوگیا۔بھارت کی جانب سے اصل کشمیری قیادت چھوڑ کر جن کشمیری رہنماؤں کو نام نہادکل جماعتی کانفرنس میں بلایا گیا انہوں نے بھی یک زبان ہوکر آرٹیکل 370 کی بحالی کا مطالبہ کردیا۔کشمیری رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت فوراً بحال کی جائے۔‘‘

 بھارتی وزیراعظم نےکشمیری رہنماؤں کو نئے انتخابات اور نئی حلقہ بندیوں پر راضی کرنے کی کوشش بھی کی۔

روزنامہ ’جنگ‘ نے لکھا ہے کہ ۔۔ ’’ وزیرِاعظم نریندر مودی نے کشمیر کے کٹھ پتلی سابق وزرائے اعلیٰ سمیت 14 کشمیریوں سے نئی دہلی میں ملاقات کی ہے۔ کشمیر میں مودی سرکار نیا ڈرامہ رچانے جا رہی ہے، ملاقات میں سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ کشمیر محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللّٰہ کے علاوہ غلام نبی آزاد اور دیگر کشمیری رہنما بھی موجود تھے۔کل جماعتی کانفرنس کے نام پرجمع کیئے گئے کشمیری رہنماؤں کو کانفرنس کا کوئی ایجنڈا نہیں دیا گیا۔بھارتی وزیرِ اعظم نے کشمیریوں کی نمائندہ کل جماعتی حریت کانفرنس کو نظر انداز کیا ہے اور اس کے کسی رہنما کو نہیں بلایا گیا۔‘‘

 کسی اخبار نے یہ نہیں لکھا کہ بیشتر نہیں بلکہ تقریبا سب ہی لیڈران نے مودی کے ساتھ تعاون کی بات کی اور سب نے کشمیر میں جمہوری عمل کی بحالی کےلئے تعاون کرنے کےلئے رضامندی ظاہر کی ہے۔اتنا ضرور ہے کہ پی ڈی پی لیڈر محبوبہ مفتی کی شکل میں پاکستان کو ایک سرخی مل گئی ۔جن کے بیان کو خوب اچھالا جارہا ہے۔حالانکہ پاکستان بھی جانتا ہے کہ محبوبہ مفتی کی سیاست اسی قسم کے توازن کے کھیل پر چل رہی ہے۔