غداری کے تمغے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-06-2021
صحافیوں پر لگام
صحافیوں پر لگام

 

 

(خالد منہاس / لاہور (پاکستان

حامد میر کو ان کے پروگرام کیپٹل ٹاک سے الگ کر دیا گیا ، تاہم جیو کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حامد میر ابھی تک جنگ گروپ سے وابستہ ہیں اور رخصت پر ہیں۔میر صاحب کو اس پروگرام سے الگ اس لیے کیا گیا کہ انہو ں نے اسدطور کیس میں فو ج اور آئی ایس آئی پر شدید الفاظ میں تفقید کی تھی اور یہ کہا تھا کہ ہمارے پاس توپ اور بندوق نہیں ہے مگر ہم اس طبقے کی گھر کی باتیں میڈیا میں لے آئیں گے۔اس پر شدید ردعمل سامنے آیا اور سوشل میڈیا پر حامد میر اور ان جیسے دوسرے افراد کے خلاف ایک طوفان برپا کر دیا گیا۔ انہیں غدار قرار دے دیا گیا ، کوئی انہیں گرفتار کرنے کی باتیں کرنے لگا اور کوئی انہیں پھانسی دینے کا مطالبہ کرنے لگا۔ سوشل میڈیاکے صارفین کی ذہنی حالت اور پختگی کا اندازہ اس طرز فکر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ میر صاحب جو بات کر رہے ہیں ان کی با ت تو سنیں اور اسے سیاق و سباق کے تناظر میں دیکھیں۔کیامیر صاحب کو پروگرام سے ہٹانے یا ملازمت سے برطرف کروانے سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور کیا جو بھی فوج اور ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو ختم کرنے کی بات کرے گا وہ غدار ہے؟ کیا اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ اس ملک کے سیاسی معاملات کو سلجھانا فوج اور ایجنسیوں کا کام ہے۔کیا آئین کی کسی شق میں یہ بات ہے کہ سیاسی حکومت کو ایک طرف کر کے حکومت کے تمام تر معاملات چلانے کے براہ راست ذمہ دار حساس ادارے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ٹھیک اور جائز باتیں ہیں تو پھر کس نے روکا ہے کہ آئین میں ترمیم کر کے فوج کے سیاسی کردار کو اس میں شامل کر لیں۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں کہ جہاں پر فوج براہ راست معاملات کی ذمہ دار ہیں۔ کیا ہم ترقی پسند اور جمہوری ممالک کی صف سے نکل کر فوجی ڈکٹیٹر شپ کی طرف جانا چاہتے ہیں تو پھر بسم اللہ کیجیے آئین میں ترمیم کریں یا آئین کو ایک طرف رکھیں اور اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نیا سوشل کنٹریکٹ کر لیں۔

 اس ملک میں ہر وہ شخص غدار قرار دیا گیا جس نے بھی آئین کی پاسداری اور قانون کی عملداری کی بات کی۔ باقی سب محب وطن رہے۔ حامد میر کے قصے میں بھی سب یہ بھول گئے کہ صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے ذمہ دار کون ہیں؟ جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے اس سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ بحثیت قوم ہم خود ہی مقدمہ درج کرتے ہیں خود ہی اس کی وکالت کرتے ہیں اور خود ہی فیصلہ سنا دیتے ہیں اور یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ پوری قوم کی یہ آواز ہے۔ ایک اور انداز فکر بھی پروان چڑھ رہا ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو خود ہی حساس اداروں اور فوج کے ترجمان بن کر باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بہت کم ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حامد میر نے اگر کوئی لائین کراس کی ہے تو ان کے خلاف ثبوت لائیں ان کے خلاف مقدمہ درج کریں اور اگر وہ قصور وار ہیں تو انہیں سزا دیں۔میر صاحب نے تو اپنے وی لاگ میں کہا ہے کہ میں کہیں نہیں بھاگوں گا یہاں موجود ہوں جس نے مجھے گرفتار کرنا ہے کر لے۔

 سوشل میڈیائی صحافت کی کرامات بہت زیادہ ہیں اور ففتھ جنریشن وار فیئر میں اس کا استعمال بخوبی کیا جار ہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا ماضی بہت خوفناک ہے۔ یہاں پر ہمیشہ جمہوریت پسندوں اور آئین کی حکمرانی کا مطالبہ کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے جاتے تھے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں حکومتی سرپرستی میں محترمہ فاطمہ جنا ح کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ گوجرانوالہ کے ایک سیاسی جلسہ میں جو ہوا ماضی پر نظر رکھنے والے بخوبی اس سے واقف ہیں۔ جنرل ضیا کے دور میں سیاسی کارکنوں کوپابند سلاسل کیا گیا ۔ جب کوڑے مارے جاتے تو سیاسی کارکن بھٹو زندہ باد کے نعرے لگاتے۔ آج بھی بھٹو زندہ ہے مگر ضیا ء کی باقیات خود اس کی نظریہ سے الگ ہو چکی ہے۔ جنرل مشرف کے سیاسی نظام کے ثمرات بھی سب کے سامنے ہیں اور اداروں اور سیاست کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ کسے نہیں معلوم۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ راولپنڈی سازش کیں میں ترقی پسند گرفتار ہوئے ، حق اور سچ کی آواز بلند کرنے والا غدار ہے اور باقی سب محب وطن۔

 پاکستان میں نئے سوشل کنٹریکٹ کی باتیں ایک عرصہ سے جاری ہیں اور مقتدر حلقوں سے بھی بعض اوقات صدارتی نظام لانے کا شوشا چھوڑا جاتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اس چوں چوں کے مربع اور آدھا تیتر اور آدھا بٹیر سے جان چھڑائی جائے۔ لاٹھی گولی کی سرکار کے نہیں چلے گی کے نعرے لگانے والے کتنے ہیں ان میں آدھے جیلوں میں بند کر دیں اورآدھے گولی سے اڑا دیں۔ ان سب کو چوکوں میں پھانسی دیں تاکہ کوئی بات نہ کر سکے پھر آرام سے حکومت چلائیں۔ہر روز ایک نیا تماشا ہر روز ایک نیا غدار۔ جو سیاسی نظام پر یقین رکھتے ہیں اور آئین کی الف ب جانتے ہیں وہ ان الزامات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔وفاق کی اکائیوں میں پہلے ہی بے چینی موجود ہیں اور کئی حلقوں سے آوازیں آ رہی ہیں کہ نیا سوشل کنٹریکٹ کیا جائے کیونکہ صوبوں کو اختیارات نہیں دیے گئے سب کچھ اسلام آباد سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے میں سیاسی جدوجہد اور آئین کی بالا دستی کا تقاضہ مزید زور پکڑے گا۔ ہم نے مشرقی پاکستان کی آواز نہیں سنے، ہمیں وہاں کے لوگوں سے زیادہ وہاں کی زمین عزیز تھی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے اور جو یہ کہتے تھے کہ ان بھوکے ننگے بنگالیوں سے جان چھڑائو ، آج شایدپچھتا بھی نہیں رہے۔ آج ٹکہ روپے کا منہ چڑا رہا ہے اور چاول اور مچھلی کھانے والوں نے اپنی معیشت کو استوار کر لیا ہے۔ آج دنیا وہاں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دے رہی ہے ان کا جی ڈ ی پی اوپر جارہا ہے اور ہمارے اعشاریے ان کے مقابلے میں آدھے بھی نہیں ہیں۔ کیا اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ بنگالیوں نے کوئی غلطی کی تھی اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے تو سکھی ہوتے۔کیا حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں جو کچھ سامنے آیا تھااس کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے پاس غداری کے تمغے بہت زیادہ ہیں انہیں اپنے پاس کیوں سنبھال کر رکھا ہے انہیں لوگوں میں تقسیم کریں۔ حامد میر کی ایک ٹویٹ ان لاکھوں ٹویٹس کو اڑا کر رکھ دیتی ہے جو صبح سے لے کر شام تک ان کے خلاف محاذ پر ڈٹے ہوتے ہیں۔ پتا نہیں آج کیوں دل کر رہا ہے کہ اپنی بات کا اختتام ان اشعار پر کروں

خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے

 اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیے

 ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں

 عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے

 یا پھر بھلے شاہ نے کہا تھا

 چل بھلیا اوتھے چلیے

 جتھے سارے انھے نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے

 نہ کوئی سانوں منے بھلے عاشق ہویا رب دا

 ہوئی ملامت لاکھ

 تینو ں کافر کافر اکھدے

 توں آہو آہو آکھ