کراچی یونیورسٹی حملہ: خاتون بمبار سرکاری اسکول ٹیچر تھی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-04-2022
کراچی یونیورسٹی حملہ: خاتون بمبار سرکاری اسکول ٹیچر تھی
کراچی یونیورسٹی حملہ: خاتون بمبار سرکاری اسکول ٹیچر تھی

 


 کراچی :کراچی یونیورسٹی میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون شاری بلوچ  تھی۔ جو دو بچوں کی ماں تھی بلکہ ایک اسکول ٹیچر بھی تھی۔ جن کا تعلق بلوچستان سے تھا ۔ جہاں پاکستان کے مظالم جاری ہیں اور ساتھ ہی چین کے سی پیک پروجیکٹ کے سبب مقامی لوگوں کی زندگی جہنم بن گئی ہے۔ 

جامعہ کراچی میں واقع چینی انسٹی ٹیوٹ کے قریب منگل کی دوپہر ایک وین پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک جبکہ ایک رینجرز اہلکار سمیت چار افراد زخمی ہوگئے تھے۔

محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے افسر راجہ عمر خطاب نے تصدیق کی ہے کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہونے والا دھماکہ ایک خود کش حملہ تھا، جو ایک سیاہ رنگ کی برقع پوش نوجوان خاتون نے گاڑی کے انتہائی قریب کیا۔ دھماکے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون سڑک کنارے کھڑی انتظار کر رہی ہیں اور جیسے ہی وین نزدیک آتی ہے تو ایک دھماکہ ہو جاتا ہے۔

حملے کے بعد بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے ٹوئٹر پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’ایک خاتون کی مدد سے یہ خودکش دھماکہ کیا گیا۔بعد میں مبینہ طور پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون کا نام شاری بلوچ بتایا گیا اور اس کی دو تصاویر بھی جاری کی گئیں۔ ان میں سے ایک تصویر میں شاری بلوچ کو دو بچوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

شاری بلوچ کے رشتہ دار نے بتایا کہ ’شاری کی عمر تقریباً 30 سال تھی۔ انہوں نے 2014 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا اور 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے زوالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ شاری بلوچ کے رشتہ دار نے مزید بتایا کہ ’2019 میں انہیں (شاری بلوچ) محکمہ تعلیم بلوچستان میں سرکاری ملازمت مل گئی اور وہ آخری وقت تک بلوچستان کے شہر تربت سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کلاتک یونین کونسل کے ایک سرکاری اسکول گورنمنٹ گرلز مڈل سکول میں استاد کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’شاری بلوچ دو بچوں کی ماں تھیں، جن میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔‘ شاری بلوچ کے رشتہ دار کے مطابق: ’سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ شاری بلوچ کے خاندان میں کچھ افراد لاپتہ ہو گئے تھے اس لیے انہوں نے انتقام لینے کے لیے ایسا قدم اٹھایا لیکن ان کے خاندان میں آج تک کوئی ایک فرد بھی لاپتہ نہیں ہوا، وہ اپنی تنظیم کے ساتھ نظریاتی طور پر کمیٹڈ تھیں، اس لیے شاید ایسا قدم اٹھایا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’خاندان میں سب پڑھے لکھے اور بیورکرسی کا حصہ ہیں۔

ان کے شوہر ڈاکٹر ہیں انہوں نے شاری بلوچ کے حوالے سے کہا کہ ’وہ کالج دور سے بی ایس او آزاد کے ساتھ رہیں۔ بعد میں انہوں نے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ کو جوائن کرلیا۔

کراچی یونیورسٹی دھماکے کے بعد ایک ٹویٹ وائرل ہوئی، جس میں شاران بلوچ نامی صارف کی جانب سے براہوی زبان میں لکھا تھا: ’رخصت اف اوران سنگت‘۔ جس کا مطب ہے کہ ’وہ جا رہی ہیں ہیں، مگر یہ سنگت چلتی رہے گی۔

دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے امور کے تجزیہ کار محمد عامر رانا سمجھتے ہیں کہ چین کے باشندوں پر حالیہ حملے کے بعد پاکستان اور اس کی حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ عامر رانا نے  بتایا کہ ’حالیہ واقعات چیلنجنگ ہیں۔

جب سی پیک ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہا ہے تو اس وقت ایسے حملے کے انتہائی منفی اثرات مرتب کریں گے۔ انہوں نے ایک خاتون کے خود کش حملہ کرنے کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’یہ خوفناک رجحان ہے۔

دنیا میں بہت سے مقامات پر خواتین ایسے واقعات میں ملوث رہی ہیں اور داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں خواتین کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ تاہم پاکستان میں ایسا بہت کم ہوا ہے۔

اگر بی ایل اے نے یہ کیا ہے تو یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ خواتین کے خودکش حملوں کی تاریخ خواتین نے طویل عرصے سے دنیا بھر میں حقیقت میں شورش، انقلاب اور جنگ میں حصہ لیا ہے۔

پہلی خاتون خودکش بمبار، ایک 17 سالہ لبنانی لڑکی صنعا ہیدالی کو سیریئن سوشلسٹ نیشنل پارٹی جو ایک سیکولر شام کی حامی تھی نے خود کو لبنان میں ایک اسرائیلی قافلے کے قریب دھماکے سے اڑانے کے لیے 1985 میں بھیجا تھا۔

اس حملے میں پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بعد میں لبنان سے خواتین بمباروں کے واقعات دیگر ممالک جیسے کہ سری لنکا، ترکی، چیچنیا، اسرائیل اور عراق تک پھیل گئے۔ 2007 تک تقریباً 17 گروپوں میں سے جنہوں نے خود کش بمبار کی حکمت عملی کا استعمال شروع کیا تھا، ان میں سے نصف سے زیادہ خواتین تھیں۔ 1985 اور 2006 کے درمیان 220 سے زیادہ خواتین خودکش حملہ آور ہوئیں۔ بلوچ مزاحمت میں یہ پہلا ایسا واقع ہے۔