کابل : خواتین خوف کے ساتھ بے روزگاری کا شکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-07-2021
خواتین پر خوف
خواتین پر خوف

 

 

کابل: افغانستان میں سیاسی اور فوجی حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں ،طالبان کی پیشقدمی کے ساتھ ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ بات حقوق کی ہو یا پھر سماجی آزادی کی۔ ہر معاملہ پر سوالیہ نشان لگا ہے۔اب کابل میں ایک اورت مسئلہ در پیش ہے۔ غریبی اور مفلسی نے ملک کی راجدھانی میں فقیروں کا سیلاب لادیا ہے۔

در اصل اب بھی کابل کو ملک کا سب سے محفوظ شہر مانا جاتا ہے۔جس کے سبب ملک میں رہنے والی تمام قومیتوں کا گڑھ بھی ہے۔ جب بھی ملک میں حالات خراب ہوتے ہیں تو کابل پر کہیں نہ کہیں دباو بڑھ جاتا ہے۔

پچھلے بیس سال کے دوران بڑی حد تک حالات معمول پر آگئے تھے ،کابل تمام تر سرگرمیوں کا مرکز رہا تھا۔ لیکن اب امریکہ کے اچانک انخلا کی خبروں نے شہر کو متاثر کیا ہے اور عوامی سطح پہ تشویش بڑھنے لگی کہ کہیں طالبان کابل تک نہ پہنچ جائیں۔ ماضی میں شہرِ کابل پہ کیا کیا ستم نہیں ڈھائے گئے، جنگ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، کرونا اور اب لوگوں کا طالبان سے خوف دوبارہ دن بہ دن بڑھنے لگا ہے۔

خواتین کا حال

بات طالبان کی ہو تو سب سے پہلے خواتین کا معاملہ اٹھ جاتا ہے۔ خواتین کی آزادی اور حقوق پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب بھی خوف میں خواتین سب سے زیادہ مبتلا ہیں۔ 

ایک جانب تو طالبان کا وعدہ ہے کہ اگر حکومت بنائی تو خواتین کے ساتھ کوئی سوتیلانہ رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا لیکندوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان نے اطراف میں جتنے بھی علاقوں پہ قبضہ کیا ہے ان پر وہی پرانے قانون نافذ کرنا شروع کر دیے ہیں۔ مردوں کو داڑھی اور خواتین کو برقع اوڑھنے کا عندیہ دے دیا۔ کابل کی خواتین کا مزاج اور مسائل اطراف کی خواتین سے یکسر مختلف ہیں۔

جائیں تو جائیں کہاں

 اب مسئلہ یہ ہے کہ خواتین جائیں تو جائیں کہاں۔در بدر کی ٹھاکریں کھا کر پریشان ہوچکی ہیں ۔طالبان دور میں یہی خواتین نقل مکانی پہ مجبور ہوئیں اور اب دوبارہ ہجرت کا سوچنا ان کے لیے ناممکن ہے۔ اس وقت کابل میں لاتعداد خواتین روزگار سے جڑی ہیں جو کہ خود کفیل ہیں۔ ایسے میں طالبان سے خوف ان کے لئے پریشان کن ہے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کے آتے ہی ملک میں پہلے جیسی خوش حالی بھی نہ رہی۔ 

زندگی بدل چکی ہے لیکن

 پچھلی دو دہائیوں نے خواتین کی زندگی بدل دی ہے ،خواتین اب گھروں تک محدود نہیں ،بےشمار خواتین نے اپنی این جی اوز کھولیں، اپنی برانڈز اور بوتیک کا کام شروع کیا۔ گلی گلی میں آرائش گاہیں کھل گئیں۔ اچار، جام، چٹنی بنانے اور ان کی فروخت کا کام شروع ہوا۔

خواتین قالین بافی، زعفران، ریشم اور صابن سازی کے چھوٹے چھوٹے کارخانوں کی مالک بھی بن گئیں اور خشک میوہ جات کے کاروبار سے بھی وابسطہ ہوئیں۔

 اس دور میں بہت سی خواتین نے صحافتی میدان میں قدم رکھے اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بیرونی امداد اور ملکی سرپرستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین کا کھویا ہوا اعتماد لوٹ آیا۔ ان کی مالی حالت اچھی ہوئی وہ اچھا پہننے اور اچھا کھانے لگیں۔

خواتین نے اپنے ہوٹل اور ریستوران بھی کھولے۔ ایک این جی او میں کام کرنے والی خاتون فرناز نے مجھے بتایا کہ حامد کرزئی کے دور میں ’میں پاؤں زمین پہ مارتی اور ڈالرز نکلتے تھے اور اب میں دونوں ہاتھوں سے کنواں بھی کھود لوں تو دور دور تک پیسے کا نام و نشان تک نہیں۔‘

سپانسرز اور سرمایہ دار اس وقت کنارے کش ہوچکے ہیں۔ پچھلے تمام منصوبے ٹھپ ہوگئے جبکہ نئے کی منظوری نہیں مل رہی ہے۔ اسی طرح وزارت تجارت سے منسلک ایک خاتون کا جو اپنا ذاتی بوتیک بھی چلاتی ہیں کہنا تھا کہ کرونا کے بعد وہ معاشی مسائل کا شکار ہیں جبکہ سپانسرز اور ڈونرز بھی ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔

 خواتین میں بے روزگاری میں اضافہ

 اس وقت خواتین میں بیروزگاری کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اب خواتین میں مہنگے لباس پہننے کا رجحان بھی ختم ہو رہا ہے۔ گاہکوں کا کہنا ہے کہ وہ روٹی خریدیں یا کپڑا؟

کابل میں غربت کی شرح روز بہ روز بڑھتے ہی بھکاریوں کی تعداد میں بھی بظاہر اضافہ ہوا ہے جن میں خواتین کی تعداد پہلے کی نسبت زیادہ ہے۔