پوٹن پر بھی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں: جو بائیڈن

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 26-01-2022
پوٹن پر بھی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں: جو بائیڈن
پوٹن پر بھی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں: جو بائیڈن

 

 

امریکی صدر کے مطابق یوکرائن پر روسی حملہ 'دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑا' واقعہ ہو گا، جس کے فوری طور 'بہت سنگین نتائج' بر آمد ہوں گے۔ روس کی جانب سے گیس کی سپلائی روکنے کی صورت میں متبادل نظم پر بھی غور ہو رہا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یوکرائن پر روسی حملے کی صورت میں واشنگٹن روسی صدر ولادمیر پوٹن پر بھی ذاتی پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے جب ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا حملہ ہونے کی صورت میں وہ خود صدر پوٹن پر بھی پابندیاں عائد کرنے کے امکانات دیکھتے ہیں؟، تو جو بائیڈن نے جواب دیا: ''ہاں، میں اسے دیکھوں گا۔''

ان کا یہ تازہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یوکرائن کی سرحد کے آس پاس موجود روسی جنگی دستوں نے اپنی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ تاہم روس کا کہنا ہے کہ وہ یوکرائن پرحملہ نہیں کرے گا۔ بائیڈن نے یوکرائن پر حملے سے متعلق کیا کہا؟ صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یوکرائن پر روسی در اندازی دوسری عالمی جنگ کے بعد ''سب سے بڑا حملہ'' بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ''یہ دنیا کو بدل کر رکھ دے گا۔'' پیر کے روز پینٹاگون نے کہا تھا کہ یوکرائن کشیدگی کے پیش نظر ساڑھے آٹھ ہزار امریکی فوجیوں کو ''سخت الرٹ'' پر رکھا گیا ہے۔ بائیڈن کا کہنا ہے کہ نیٹو اتحادیوں کے لیے امریکا کی ایک ''مقدس ذمہ داری'' ہے اور اگر روس کی جانب سے فوجیوں کے اجتماع کا سلسلہ جاری رہا یا پھر اس کی جانب سے کوئی اقدام کیا گیا، تو ان فوجیوں کو ضرورت کے مطابق تعینات کیا جا سکتا ہے۔ تاہم بائیڈن نے نامہ نگاروں پر یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کا یوکرائن کے اندر امریکی فوجیوں کو بھیجنے کا ''کوئی ارادہ نہیں ہے۔'انہوں نے کہا کہ پوٹن جو بھی اقدام کریں گے اس کے سنگین معاشی نتائج برآمد ہوں گے تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کیا اقدامات کرتے ہیں۔ امریکی حکام کے حوالے سے یہ اطلاع دی ہے کہ اگرجنگ کی صورت میں روس یورپی ممالک کو اپنی گیس کی سپلائی اور فراہمی منقطع کر دیتا ہے، تو اس صورت میں گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے دیگر ممالک سے بھی بات چیت جاری ہے۔

حالانکہ اس سلسلے میں ابھی تک کسی خاص ملک یا توانائی کمپنی کا نام سامنے نہیں آیا تاہم بائیڈن انتظامیہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں ہے کہ ہر صورت میں یورپی ممالک کو گیس کی سپلائی جاری رہے۔ اس سلسلے میں جو ممالک یا کمپنیاں مائع قدرتی گیس (ایل این جی) فراہم کرتی ہیں ان سے بات چیت جاری ہے۔ایک سینیئر امریکی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے لے کر ایشیا اور امریکا تک، ہم دنیا کے مختلف علاقوں سے غیر روسی قدرتی گیس کے اضافی حجم کی نشاندہی کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔''دریں اثنا وائٹ ہاؤس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قطر کے حکمراں شیخ تمیم بن حماد الثانی اس ماہ کے اواخر میں جو بائیڈن کے ساتھ بات چیت کرنے والے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں گیس کی سپلائی پر بھی بات چیت کا امکان ہے۔ قطر کا شمار دنیا کے ان پانچ ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ ایل این جی کی پیداوار ہوتی ہے۔

یورپی رہنماؤں کا مذاکرات پر زور اس دوران منگل کو ہی جرمن چانسلر اولاف شولس اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے درمیان برلن میں ملاقات ہوئی ہے۔ دونوں رہنما یوکرائن روس بحران میں سفارت کاری کو آگے بڑھنے کے راستے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے خبردار بھی کیا کہ اگر روس نے حملہ کیا تو اس کے ''سنگین نتائج'' ہوں گے۔اس موقع پر جرمن چانسلر نے روس سے تناؤ کو کم کرنے کے لیے ''واضح اقدامات'' کرنے کا مطالبہ کیا تاہم انہوں نے کہا، ''اگر جارحیت ہوتی ہے تو جوابی کارروائی بھی ہو گی اور اس کی قیمت بہت زیادہ ہو گی۔'' روس، یوکرائن، جرمنی اور فرانس کے نمائندے آج 26 جنوری بدھ کو پیرس میں 'ٹور مذاکرات' کے لیے ملاقات کرنے والے ہیں جسے نارمنڈی فارمیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اولاف شولس نے اس پیش رفت کی تعریف کی ہے۔

فرانس کے صدر نے بھی روسی صدر ولاد میر پوٹن سے جمعے کے روز فون پر بات چیت کرنے کی بات کہی ہے تاکہ اس بحران کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔