انڈونیشا: ماحولیاتی تحفظ اور مذہبی ادارے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 انڈونیشا: ماحولیاتی تحفظ  اور مذہبی ادارے
انڈونیشا: ماحولیاتی تحفظ اور مذہبی ادارے

 

 

کوالالمپور:دنیا کے سامنے ماحولیاتی آلودگی کا چیلنج منھ پھاڑے کھڑا ہے، الو د گی زندگی کے مسائل نے دنیا کے سامنے بقا کی جنگ کے حالات پیدا کرتے ہیں- ماحولیاتی آلودگی کی اہمیت اور نزاکت نے دنیا کے سامنے ایک بڑا مسئلہ پیدا کردیا ہے کہ کس طرح انسانوں میں اس کے تئیں بیداری پیدا کی جائے-

  ہم جانتے ہیں کہ ماحول کو آلودگی سے تحفط فراہم کرنے کے لیےنباتات،پانی،ہوا،مٹی وغیرہ اہم کرداراداکرتے ہیں۔ اس لیے عوام میں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کرنے کیلئے دنیا بھر میں مہم چل رہی ہیں-

 ہی ایک پہل یا مہم انڈونیشیا میں بھی شروع ہوئی ہے -جہاںعلما اور اسلامی تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ جمعہ کی نماز کے لیے مساجد کے ہجوم سے لے کر رہائشی مدارس کی کلاسز تک، موسمیاتی تبدیلی کے خدشات پر قابو پانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ کا استعمال کریں۔

یہ کہانی انڈونیشیا کی ہے جہاں دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے۔ ملک کے اعلیٰ مسلم نمائندے گزشتہ ماہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوئے۔

اس اجتماع کا مقصد گلوبل وارمنگ کے بارے میں آگاہی پھیلانا اور آب و ہوا کے مسائل کو اسلام کی تعلیمات سے جوڑنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

مسلم رہنماؤں نے مسلم کانگریس فار سسٹین ایبل انڈونیشیا کے نام سے ایک فورم بھی تشکیل دیا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے مسلم کمیونٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فورم کو عطیات دیں تاکہ ان کوششوں کے لیے فنڈز کا بندوبست کیا جا سکے۔ ماحولیات کے لیے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ مسلم رہنما اور امام موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے اور اس کے بارے میں لوگوں کی سمجھ بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ حکومتوں کے ساتھ بھی کام کر سکتے ہیں تاکہ ان کی پالیسیاں نہ صرف اقتصادی ترقی بلکہ پائیدار ترقی پر بھی مرکوز ہوں۔

انڈونیشیا میں موسمیاتی کارکنوں کے ایک گروپ کے لئے ڈیجیٹل مہم چلانے والے جیری اسمورو کہتے ہیں کہ "انڈونیشیا میں ائمہ اور مذہبی رہنما واقعی انتہائی قابل احترام اور سنے جانے والے لوگ ہیں۔ ان کا حکومتی پالیسیوں اور لوگوں کے اقدامات دونوں پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے۔

اسمورو نے یہ بھی کہا، "امام سماجی تبدیلی پر بڑا اثر ڈال سکتے ہیں... وہ ماحول دوست زندگی کے بارے میں بیداری پیدا کر سکتے ہیں اور آب و ہوا کی مہمات کو نچلی سطح پر پھیلا سکتے ہیں ۔" 2015 کے پیرس معاہدے میں، انڈونیشیا نے گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے 2030 تک اخراج کو کم کرنے اور 2060 تک یا اس سے قبل خالص صفر تک پہنچنے کا عہد کیا ہے۔

کاربن کے اخراج کے لحاظ سے انڈونیشیا دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ مسلم اکثریتی ملک اپنی بجلی کا 85 فیصدفوسیل فیول سے پیدا کرتا ہے اور دنیا کے سب سے بڑے کوئلے کے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ اس کے ساتھ یہ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا بارشی جنگل اور پام آئل کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا بھی ہے۔

ماحولیات پسند گروپ انڈونیشیا پر جنگلات کاٹ کر پام کے درخت لگانے کا الزام لگاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عالمی اہداف پر جنگلات کی کٹائی کا بڑا اثر پڑتا ہے۔ درخت دنیا کی گرمی کے اخراج کا ایک تہائی حصہ جذب کرتے ہیں، لیکن جب انہیں کاٹا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے، تو وہ وہی کاربن واپس فضا میں پھینک دیتے ہیں۔

انڈونیشیا کو پہلے ہی گلوبل وارمنگ کا سامنا ہے۔ اس کے شہروں اور ساحلی علاقوں کو ہر روز سیلاب اور سطح سمندر میں اضافے کے مسئلے کا سامنا ہے۔ دوسری طرف دیہی علاقوں کو جنگل کی آگ اور خشک سالی سے نمٹنا پڑتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف انڈونیشیا کے آب و ہوا کے منصوبے کی رہنما زلفیرا ورتا کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر مسلم مذہبی رہنماؤں کو اپنی برادریوں میں مزید قیادت دینے کی ضرورت ہے۔ انڈونیشیا کی 270 ملین آبادی کا 90% مسلمان ہیں۔ ملک میں 8 لاکھ مساجد اور 37 ہزار رہائشی مدارس ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 170 یونیورسٹیاں ہیں جن کے سربراہ مسلمان ہیں۔ اس لحاظ سے یہ اس مسئلے پر تعلیم اور کام کے لیے ایک بہت بڑا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔

"آب و ہوا اور ماحولیات کی مہموں کے لیے درکار اخلاقی اور روحانی توانائی میں ائمہ ایک بڑا یوگدان دے سکتے ہیں۔ گرین پیس انڈونیشیا کے رومادون کے مطابق، مسلم مذہبی رہنما اب بھی زیادہ تر لوگوں کی زندگی سے متعلق فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہبی رہنماؤں کو زمین اور اس کی مرمت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ اسلامی معلومات کو فروغ دینا چاہیے۔

اس سمت میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ انڈونیشیا کی اعلیٰ ترین کونسل نے 2014 میں خطرے سے دوچار جانوروں کے قتل کے خلاف قانونی طور پر غیر پابند فتویٰ جاری کیا۔ دو سال بعد کھیتوں اور جنگلات میں آگ کو روکنے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کیے گئے۔ پانچ سال پہلے، انڈونیشیا کے نمازیوں نے 1,000 ایکو ماسک نصب کرنے کی مہم شروع کی تھی، اور 2018 میں اسلامی تنظیمیں پلاسٹک کے فضلے کو کم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کرکام کرنے آئیں۔