عمران عدالت میں: عدالت کی دہشت گردوں کے سامنے خود سپردگی پر پھٹکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-11-2021
عمران عدالت میں: عدالت کی دہشت گردوں کے سامنے خود سپردگی  پر پھٹکار
عمران عدالت میں: عدالت کی دہشت گردوں کے سامنے خود سپردگی پر پھٹکار

 

 

اسلام آباد : پاکستان میں آج ایک بڑا سیاسی اور قانونی ڈرامہ ہوا۔ جس میں ملک کے وزیر اعظم عمران خان نہ صرف سپریم کورٹ میں پیش ہوئے بلکہ عدالت نے وزیر اعظم عمران خان کو زبردست پھٹکار لگائی۔ملک کے نظام پر سوالیہ نشان لگایا اور حکومت کے طریقہ کار پر سوال کیے۔ دراصل پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے طلب کرنے پر پیش ہوئے، عدالت کے روبرو انہوں نے کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، آپ حکم کریں، ہم ایکشن لیں گے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سانحۂ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کیس کی سماعت کی۔

مگر ان کے ان ڈائیلگ کا عدالت پر کوئی اثر نہیں پڑا دوران سماعت عدالت نے کہا کہ کیا حکومت طالبان کے سامنے سرنڈر (ہتھیار ڈال) رہی ہے اور سادھوکی میں مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر کیا کارروائی کی گئی تو وزیراعظم عمران خان افغانستان کے حالات کے پاکستان پر اثرات کی مثال دیتے رہے۔

بدھ کے روز سانحہ آرمی پبلک سکول کے مقدمے کی سماعت اُس وقت اہم موڑ پر آگئی جب اٹارنی جنرل آف پاکستان روسٹرم پر گئے اورعدالت کو گذشتہ حکم نامے کے حوالے سے تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس کے بعد عدالت نے کہا کہ ہم وزیراعظم کو ہی بلا لیتے ہیں وہی آ کر بتائیں گے کہ اعلی عہدوں پر فائز ذمہ داران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔

عدالت کے اس حکم کے بعد سپریم کورٹ میں ہلچل مچ گئی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید ہدایات لے کر وزیراعظم آفس چلے گئے جبکہ کچھ دیر بعد وزیراعظم کی سکیورٹی کا عملہ بھی سپریم کورٹ پہنچ گیا جس سے یہ یقین ہوگیا کہ وزیراعظم عدالت میں پیش ہونے والے ہیں۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ نے بھی آ کر چیکنگ شروع کردی۔ سکیورٹی سٹاف نے آ کر ڈیوٹی سنبھال لی۔ ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندگان کی بڑی تعداد احاطہ عدالت میں پہنچ گئی تھی۔

۔۔ 11 بجکر 35 منٹ پر وزیراعظم ججز کے لیے مختص راستے سے سپریم کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے اور اُسی راستے سے 11 بجکر 40 منٹ پر کمرہ عدالت پہنچے۔

کمرہ عدالت میں وزیراعظم سے پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید بھی پہنچ چکے تھے۔ جب کہ وزیراعظم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وزیر بحری امور علی زیدی، معاون خصوصی شہباز گل، وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب اور ملٹری سکریٹری تشریف لائے تھے۔

وزیراعظم روسٹرم کے سامنے موجود پہلی نشت پر براجمان ہو گئے۔ عموماً پانامہ کیس کی سماعت کے دوران بھی وزیراعظم پہلی نشستوں پر ہی تشریف فرما ہوتے تھے۔

وزیراعظم کی پچھلی نشتوں پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور ملٹری سیکرٹری موجود تھے۔ پانچ منٹ وزیراعظم نشست پر موجود رہے اس دوران وہ تسبیح بھی پڑھتے رہے اور پچھلی نشست سے فواد چوہدری اُن کے کان میں سرگوشیاں بھی کرتے رہے۔

۔ 11 بجکر 45 منٹ پر سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے وزیراعظم عمران خان کو روسٹرم پر آنے کا کہا۔ وزیراعظم ہاتھ میں تسبیح تھامے روسٹرم پر گئے۔

Prime Minister Imran Khan appeared before the Supreme Court (SC) on Wednesday in a case pertaining to the Army Public School (APS) attack.

سانحہ میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین بھی روسڑم پر چلے گئے جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ وہ بیٹھ جائیں اُن سے بعد میں بات کی جائے گی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم صاحب آپ نے عدالت کا حکم نامہ پڑھ لیا؟ اس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’سانحہ اے پی ایس 2014 میں ہوا، سانحے کی رپورٹ 2019 میں سامنے آئی۔ جن کی ذمہ داری تھی ان کا احتساب نہیں کیا گیا۔ ہم نے اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کاحکم دیا تھا ہمیں بتائیں کہ والدین کے تحفظات دور کرنے کے لئے حکومت نے کیا کیا؟

وزیراعظم عمران خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’جس دن سانحہ اے پی ایس ہوا کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ میں پشاور پہنچا اور بچوں اوران کے والدین سے ملا۔ ماں باپ سمیت پوری قوم صدمے میں تھی۔ واضع کر دوں کہ جو ازالہ ہم کر سکتے تھے وہ کیا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ان کو ازالہ نہیں اپنے بچے چاہیے تھے کیا وہ واپس لا کر دے سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آخری آرڈر میں ہم نے باقاعدہ نام دیے تھے، ان کا کیا ہوا؟ آپ اقتدار میں ہیں، حکومت بھی آپ کی ہے۔ ہم کوئی چھوٹا ملک نہیں۔‘

اس کے جواب میں وزیراعظم نے بولنا شروع کیا اور کہا کہ ’میں واضح کر دوں‘ ابھی وہ اتنا ہی بولے تھے کہ جسٹس قاضی امین نے تیز اور بلند آواز میں کہا کہ ’مسٹر وزیراعظم! ہمیں میڈیا سے پتا چل رہا ہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ انہی مجرموں کو مذاکرات کی میز پر لے آئے، کیا آپ دوبارہ اُن کے سامنے سرنڈرکر رہے ہیں ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت جو حکومت میں کرتا دھرتا تھے مراعات لے رہے تھے وہ بھی ذمہ دار تھے ہماری ایجنسیز نے کیا کیا؟ کیا ایسا کوئی قدم اُٹھایا گیا جس سے یہ واقعہ روکا جا سکتا تھا؟

جسٹس اعجاز نے کہا کہ ’رپورٹ کے مطابق سکول کو دھمکیاں مل چکی تھیں اس لحاظ سے وہاں پہلے سے سکیورٹی موجود ہونی چاہیے تھی۔ ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ حکومت کی نااہلی تھی جو انہیں تخفظ فراہم کرنےمیں ناکام رہی۔

جب عدالت نے وزیراعظم پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کی تو وزیراعظم ایک ہاتھ سے تسبیح پڑھتے رہے جبکہ چہرہ کسی تاثر کے بلکل سپاٹ تھا اور ججوں کو خاموشی سے سُنتے رہے۔

 کئی موقعوں پر انہوں نے زیادہ پراعتمادی ظاہر کرنے کی کوشش بھی کی جس کو ججز کے سوالات نے کم کر دیا تھا۔

وزیراعظم  پاکستان عمران خان سپاٹ چہرے کے ساتھ ججوں کے ریمارکس سنتے رہے۔ پھر انہوں نے عدالت سے کہا کہ ’آپ مجھے بولنے کا موقع دیں گے تو میں وضاحت کروں گا آپ بات کو سمجھنے کی کوشش تو کریں۔ میں تو تب وزیراعظم نہیں تھا میں نے آن ریکارڈ کہا تھا کہ امریکہ کی جنگ میں نہ گھسیں پاکستان کو نیوٹرل رہنا چاہیے۔ جنرل مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ میں تو تب بھی مخالفت کی تھی کہ یہ بعد میں نقصان دہ ہوگا۔‘ 

عمران خان نے مزید کہا کہ ’والدین کا دُکھ اپنی جگہ لیکن 80 ہزار لوگ بھی شہید ہوئے۔ اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی۔

جسٹس صاحب امریکہ سُپر پاور ہو کر دہشت گردی کی جنگ نہیں لڑ سکا۔ لیکن پاکستان نے وہ جنگ جیتی کیونکہ جب سانحہ اے پی ایس ہوا تو تمام قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے جیت ممکن ہوئی پوری قوم پر اے پی ایس کے سانحے نےسکتہ طاری کر دیا تھا۔‘