بدلتا ہے طالبان رنگ کیسے کیسے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-09-2021
طالبان بلیک اینڈ وہائٹ سے کلرڈ تک
طالبان بلیک اینڈ وہائٹ سے کلرڈ تک

 

 

منصورالدین فریدی: آواز دی وائس

افغانستان دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اور طالبان ایک نیا موضوع بحث ۔ افغانستان اور دنیا خطرے میں ہے اور طالبان دنیا کے لئے  خطرہ نظر آرہے ہیں ۔

مگر ایک اور بات ہے جو طالبان کی کابل واپسی کے بعد سے دنیا کوحیران پریشان کررہی ہے۔وہ ہے طالبان کا بدلا ہوا حلیہ اورانداز۔جس کی بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ بدل گئے ہیں طالبان۔

لیکن طالبان کے دل میں کیا ہے کوئی نہیں جانتا ۔ان کی نیت کیا ہے کوئی نہیں سمجھ پایا ہے اور ان کے ارادے کیا ہیں اس پر قیاس آرائیوں کا دور چل رہا ہے۔ 

بہرحال 15 اگست کو کابل میں داخل ہونے کے بعد بدلے بدلے سے سرکار ہیں۔ کسی کے چہرے پرداڑھی ہے تو کسی کے چہرے پر  نہیں ہے۔ان کی چال بدلی ہوئی ہے،وہ سادگی غائب ہے جو ماضی میں تھی۔اب طالبان رنگ برنگے ہیں ،فیشن ایبل ہیں،کہیں مسکرا بھی رہے ہیں اور کہیں سلیفی کی تہذیب کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں ۔

دنیا غور کررہی ہے کہ افغانستان کو ایک بار پھر معمہ بنانے والے طالبان میں یہ تبدیلی کہاں سے آئی ہے؟ کیسے آئی ہے اور کیوں آئی ہے۔ یہ ایک بحث ہے ۔سب کی اپنی اپنی رائے ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ طالبان کا انداز اوراسٹائل اب سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ 

awazurdu

خچر کی سواری سے اسپورٹس بائیک تک پہنچ گئے طالبان

دنیا بھر کے اخبارات اور ویب سائٹس پر رنگ برنگے طالبان کی کہانیاں گردش کررہی ہیں۔ کوئی طالبان دقیانوسی نظر نہیں آرہا ہے ،کسی کے چہرے پر کرختگی نہیں ہے ۔سب مست مولا لگ رہے ہیں ۔لباس سے بھی اور انداز سے بھی۔

کوئی سرخ پٹھان سوٹ میں ہے تو کوئی نیلے۔ کسی نے پیلا لباس پہن رکھا ہے تو کسی نے سبز۔ ایک طرح سے رنگوں کی بہار آگئی ہے ۔ سیاہ و سفید طالبان اب ماضی کی یاد بن گئے ہیں۔

کابل کی سڑکوں پر طالبان کی طوطی بولتی تھی،لوگ انہیں دیکھ کر سہم جاتے تھے اب ان کے ساتھ سیلفی لی جارہی ہے۔

اب دنیا کے سامنے جو رنگین طالبان کھڑے ہیں وہ کسی کو ساتویں دہائی کے ’ہپٓی‘یاد دلا رہے ہیں تو کسی کو ’دم مارو دم‘کے کردار

بیس سال کی جلا وطنی نے طالبان کو ایسا بدل دیا ہے کہ سوشل میڈیا پر محفلیں سج گئی ہیں۔زبردست مذاق چل رہا ہے۔ ہر کوئی اپنی رائے ظاہر کررہا ہے۔ 

کسی کا کہنا ہے کہ ’یہ طالبان فیشن زدہ ہیں‘  کسی نے لکھا ہے کہ مِرب زدہ ہوگئے ہیں طالبان ۔کوئی کہہ رہا ہے کہ فیشن کا نیا شوق پال لیا ہے طالبان نے۔

awazurdu

لال چھڑی میدان کھڑی  ۔۔۔۔۔۔

کیا سے کیا ہوگئے طالبان۔ سیاہ و سفید سے  رنگین ہوگئے 

ایک بات تو واضح ہے کہ طالبان کے نئے انداز اور پسند نے ہر کسی کو چوکا دیا ہے۔

ظاہر بات ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی آئے گی تو سوشل میڈیا پر شور کیوں نہیں مچے گا۔

اب ٹیوبٹر پر ان کی زندگی کے اس دور پر بھی نظر ڈالی جارہی ہے جب وہ میلے کچلے کپڑے پہنے نظر آتے تھے۔ وہ آٹھویں دہائی کے طالبان تھے۔نویں دہائی کے طالبان اور بھی خونخوار تھے،جو اسلامی قوانین کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور کراتے تھے۔ 

ایک صارف نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ یہ کیا سے کیا ہوگئے۔ انہیں موبائل تہذیب نے بدل دیا۔ یہ آن لائن شاپنگ کرنے والے طالبان ہیں۔

awazurdu

رنگ برنگے طالبان  کہاں سے آئے ہیں یہ ؟

اب سوشل میڈیا پر افغانستان کے بارے میں تمام تر تشویش کے باوجود طالبان کے ’رنگین‘ کردار پر محفلیں سجی ہوئی ہیں۔

دراصل 14 اگست کو جب طالبان نے کابل کی سرحد پر پڑاو ڈالا تھا اور حکومت کی منتقلی پرافغان حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تھے تو سب کو حیحرت ہوئی تھی کہ لڑاکے مذاکرات کے قائل کیسے ہوگئے؟

کیا ان کی سوچ بدل گئی ہے؟ دوسرے دن جب یہی طالبان کابل میں داخل ہوئے تو لوگ اور چونک گئے۔کیونکہ یہ طالبان دو دہائی قبل جیسے نظر نہیں آرہے تھے۔

کچھ الگ نہیں تھے بلکہ بہت مختلف نظر آرہے تھے۔ نہ صرف کابل والے چونکے بلکہ دنیا بھی۔ بیس سال قبل میلے کچلے کپڑوں میں گشت کرتے ہوئے نظر آتے تھے طالبان ،جن کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا گویا پہاڑوں کی زندگی سے باہر نہیں آسکے ہیں ۔ لیکن اس بار طالبان سیاہ و سفید سے ’’رنگین‘ ‘ ہوگئے ہیں ۔

awazurdu

کابل کی سڑکوں پر طالبانی فیشن شو

کابل کی سڑکوں پر ہتھیار بند طالبان اب میلے کچلے کپڑوں میں نہیں ،وہ رنگ برنگے پٹھان سوٹ کے ساتھ کچھ ایسے لباس میں نظر آرہے ہیں کہ دنیا چونک رہی ہے بلکہ دنیا کے مشہور فیشن میگزین انہیں اپنے سر ورق پر پیش کررہے ہیں ۔

طالبان کے نوجوان جنگجوؤں نے اپنے بزرگوں کے انداز کو ترک کردیا ہے۔ جواب سن گلاسز یعنی کہ چشمے، اسٹائلش لباس اور بیس بال کیپ کے ساتھ ہاتھوں میں خوبصورت دستانے پہنے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ یاد رہے کہ 1996 سے 2001 تک طالبان کے اقتدار کے پہلے دور میں ان کے جنگجو اپنی سخت گیر شکلوں کے لئے جانے جاتے تھے اور روایتی لباس پوری داڑھی کے ساتھ پہنا جاتا تھا۔

awazurdu

نئی نسل کا نیا انداز

لیکن آج کے جنگجوؤں نے جنہیں میڈیا کی دلکشی اور خواتین کے بارے میں زیادہ ترقی پسندانہ نقطہ نظر اختیار کرنے کے خالی دعووں کی وجہ سے 'طالبان 2.0' کا نام دیا گیا ہے، ملک میں مغربی اثر و رسوخ کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے بھی کہیں زیادہ جدید اور مغربی طرز عمل اپنایا ہے

حالیہ دنوں میں کابل میں لی گئی تصاویر میں طالبان جنگجوؤں کو دھوپ کے چشمے، بیس بال ٹوپیاں اور طالبان کے پرچم سے مزین سامان کے ساتھ نظر آئے ۔ یہاں تک کہ کچھ کی داڑھی نہیں ہے حالانکہ ایک وقت طالبان اسلامی قانون کے تحت درکار داڑھی پر زور دیتے تھے۔۔

 

وہ اب سڑکوں پر بالکل کھلے عام اور آزادی کے ساتھ بے جھجک پوز دیتے ہیں۔

ان کے انداز کو نشانہ بنایا جارہا ہے ،ان کی تصا ویر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔

کیا سے کیا ہوگئے طالبان ؟ لوگ حیرا ن ہیں کہ یہ کیسے طالبان ہیں؟

اب نہ خوف رہا نہ جلال ۔خواتین ان کے سامنے مظاہرے کررہی ہیں ،مگر  طالبان مسکرا رہے ہیں ۔ غصہ سے بے نیاز نظر آرہے ہیں ۔یہی انداز شک پیدا کررہا ہے کہ کیا واقعی یہ طالبان ہی ہیں؟یا پھر مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں  طالبان؟

جو بھی ہو ایک بات تو واضح ہے کہ پہاڑوں اور غاروں میں زندگی گزارنے والے اب مغربی انداز اپنا رہے ہیں ،اسٹائل گرو بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس میں کوئی برائی نہیں ۔بس اصل فرق اس وقت پڑے گا جب دنیا کو اس بات کا ثبوت ملے کہ طالبان کی سوچ یا ذہنیت بھی بدل چکی ہے۔