کورونا وائرس: کیسے پھیلا، ایک بار پھر ہورہی ہے تحقیق

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-10-2021
کورونا وائرس: کیسے پھیلا، ایک بار پھر ہورہی ہے تحقیق
کورونا وائرس: کیسے پھیلا، ایک بار پھر ہورہی ہے تحقیق

 

 

آواز دی وائس، ہیلتھ ڈیسک

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر کورونا وائرس چین کے شہرووہان سے شروع ہوا اور پھریہ بیماری پوری دنیا میں پھیل گئی۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے 26 ماہرین کا ایک نیا مشاورتی گروپ تشکیل دی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کورونا وائرس کہاں اور کییسے پھیل گیا۔

یہ گروپ چین میں کورونا کی اصلیت کی تحقیقات کرے گا۔ اس سال کے شروع میں ، ڈبلیو ایچ او کی ایک ٹیم نے چین کے شہر ووہان میں 4 ہفتوں تک تفتیش کی ، لیکن کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ چین سے کہا گیا ہے کہ اس بار ابتدائی کیسز سے متعلقہ ڈیٹا دستیاب کیا جائے۔

ڈبلیو ایچ او نے یہ بھی کہا ہے کہ کورونا وائرس کی اصلیت جاننے کی آخری کوشش ہو سکتی ہے جس نے  متحرک دنیا کو ایک طرح سے روک دیا ہے۔

خیال رہے کہ  کورونا کا پہلا کیس دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں رپورٹ ہوا تھا اور خدشہ ہے کہ وہاں سے یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔

تاہم چین بار بار کہہ رہا ہے کہ ووہان کی لیب سے وائرس کے لیک ہونے کے دعوے جھوٹے ہیں اور مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے۔

اس سلسلے میں ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے رواں سال مارچ میں جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ کورونا وائرس چمگادڑوں سے کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا ہو تاہم مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ایسی صورتحال میں ووہان لیب کا آڈٹ ہونا چاہیے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈبلو ایچ او نے ماہرین کا ایک نیا گروپ تشکیل دیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ اینٹونیو گوٹیرس نے  کہا کہ دنیا بھر سے موصول ہونے والی 700 درخواستوں میں سے 26 ماہرین کو ان کے عالمی معیار کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ جانوروں کی صحت ، کلینیکل میڈیسن ، وائرولوجی اور جینومکس سے متعلق ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم ووہان سے 2019 کے اعداد و شمار پر توجہ مرکوز کرے گی۔

کورونا پر ڈبلیو ایچ او کی ٹیکنیکل ٹیم کی سربراہ ماریہ وین کرخوف نے امید ظاہر کی ہے کہ چین تحقیقات میں مدد کرے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین درجن سے زیادہ مجوزہ مطالعات کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کورونا جانوروں سے انسانوں تک کیسے پہنچا۔

کرخوف کا کہنا ہے کہ 2019 میں ووہان کے لوگوں میں کیے گئے اینٹی باڈی ٹیسٹ کا ڈیٹا کورونا کی اصلیت کا پتہ لگانے میں بہت اہم ہوگا۔