حاشر فاروقی: صحافت کا ستون چل بسے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-01-2022
حاشر فاروقی:  صحافت کا ستون چل بسے
حاشر فاروقی: صحافت کا ستون چل بسے

 

 

 عارف الحق عارف

 لندن میں مسلم صحافت کا بڑا نام اور انگریزی جریدے “ Impact International “ کے ایڈیٹر انچیف حاشر فاروقی 92 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔جن کی پورپ میں مسلمانوں کی خدمات اور صحافت کے ذریعے ان کی کاوشوں کو عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔اللہ تعالی ان کو جوار رحمت میں جگہ دے، ان کی دینی اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کے مسائل اور حقوق اور دینی بیداری کے لیے ان کی صحافتی خدمات کو قبول کرے اور جنت الفردوس میں اعلی ترین مقام عطا کرے۔ آمین۔

حاشر فاروقی کی وفات سے امت مسلمہ ایک بڑے صحافی، انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے ایک مجاہد، دنیا بھر کے مظلوموں کا درد رکھنے والے اور ان کی آواز بن کر ان کی لڑائی لڑنے والے ایک فائٹر اور دنیا میں مسلمانوں کے زوال اور اس سے نکالنے کے راستوں پر غورو فکر کرنے والے ایک مفکر سے محروم ہو گئی ہے۔

حاشر فاروقی زمانہ طالب علمی سے مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی کے فہم اسلام سے متاثر تھے اور پھر زندگی کے آخری لمحے تک وہ اسی مکتبہ فکرسے وابستہ رہے اور عالم اسلام اور مسلمانوں کو درپیش مسائل اور ان پر ہونے والے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف اپنے جریدے میں اپنے طاقتور قلم سے آواز بلند کرتے رہے۔ حاشر فاروقی 1960 میں لندن آئے اور قیام کے کچھ عرصہ بعد لندن اور برطانیہ کے دوسرے شہروں میں اسلامی فکر رکھنے والے شہریوں سے رابطہ کیا اور باہمی مشورے سے یو کے اسلامک مشن کی بنیا رکھی۔

وہ اسلامک فاؤڈیشن یو کے لیسٹر اور مسلم ایڈیو کے کے بھی سرگرم رکن تھے۔ انہوں نے 1970 میں بہت ہی کم وسائل سے صرف اپنے پختہ عزم اور اللہ پر کامل بھروسے اور یقین کے ساتھ تن تنہا لندن سے انگریزی کا جریدہ امپیکٹ انٹرنیشنل شائع کرنا شروع کیا۔وہ ایک مدت تک اس جریدے میں کام کرنے والے واحد شخص تھے جس کو ون مین آرمی کہا جا سکتا ہے۔یہ جریدہ تھوڑے عرصہ میں پورپ میں مسلمانوں کی توانا آواز بن گیا۔ایک عرصے تک دو کمروں کے ایک دفتر میں اس جریدے کے وہی دفتری، وہی رپورٹر، وہی سب ایڈیٹر،وہی ایڈیٹر،وہی ٹائپسٹ، وہی ناشر، وہی پبلشر، وہی مارکیٹ منیجر اور وہی اکاؤٹنٹ رہے۔ 

اس سے جریدے اور اس میں شائع ہونے والے لوازمہ کا معیار بلند ہوا، اس کی اشاعت اور رسائی جگہ جگہ اور ملکوں ملکوں پہنچنے لگی۔ انڈیا،پاکستان،ترکی، عرب اور افریقی ممالک کے اخبارات اور جرائد میں امپیکٹ کے اداریئے اور آرٹیکل چھپنے لگے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پرچے میں شائع ہونے والے آریکل،اداریئے اور کالم حقائق پر مبنی،متوازن، غیر جانبدار اور کسی جابر اور ظالم کے ظلم کے آگے نا جھکنے کا تاثر رکھتے تھے اور یہی حاشر فاروقی کی صحافت کے اصول تھے جن پر وہ پوری صحافتی زندگی قائم رہے۔یہی اصول انہوں نے ان جوانوں کو دکھائے جو صحافت کی تربیت کےلئے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ان کے تربیت یافتہ صحافی اس وقت لندن کے اخبارات میں کام کر رہے ہیں۔ان کی صحافتی اور انسانی حقوق کے لئے کاوشوں پر ان کو 2013 میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ہمارے دوست انجیئر خالد بیگ بھی جو آج کل لاس اینجلز کی اورنج کاؤنٹی میں رہتے ہیں۔1994 سے 2003 تک ان کے جریدے امپیکٹ انٹر نیشنل کے مستقل کالم نگار رہے۔وہ First things first کے عنوان سے کالم لکھتے تھے۔جس میں ان کے کالموں میں سے 80 کا انتخاب ایک کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے۔جو Amazon سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ حاشر فاروقی 6 جنوری 1930 میں کان پور انڈیا میں پیدا ہوئے تھے۔

حاشر فاروقی 1980 میں اس وقت عالمی خبروں میں بھی آئے جب ایرانی انقلاب کے دوسرے سال کردستان کی علاحدگی کے حامیوں نے لندن میں ایرانی سفارت خانے کو 30 اپریل سے 5 مئی تک یرغمال بنائے رکھا۔ان 29 یرغمالیوں میں حاشر فاروقی بھی تھے جو اس وقت کسی کام سے سفارت خانے میں موجود تھے۔

انہوں نے سفارتخانے کو یرغمالیوں سے آزاد کرانے میں بھی اپنے اثرات کو استعمال کیا۔وہ برطانیہ کے ان چند مسلم رہنماؤں میں بھی شامل تھے جنہوں نے پرنس آف ویلز ویلیم چارلس کو اسلامک مشن یو کے لیسٹر کا دورہ کرنے پر آمادہ کیا اور یہ دورہ ممکن ہوا۔اس دورے کی وجہ سے برطانیہ کی مسلم کمیونٹی کی طرف سے اس اہم شاہی مہمان کو اسلام اور مسلمانوں سے تعارف اور ان کے برطانیہ میں مسائل جاننے کا موقع ملا۔

معزز مہمان کو فاؤنڈیشن اور کمیونٹی کی طرف سے تحائف بھی دیئے گئے۔برطانیہ کی تاریخ میں یہ ایک اہم موڑ اور موقع تھا جب شاہی خاندان کے ولی عہد کو براہ راست مسلم کمیونٹی کے کسی ادارے کو دیکھنے اور دین اسلام کو سمجھنے اور مسلمانوں کے مسائل کو بالمشافہ سننے کے لئے مدعو کیا گیا۔ حاشر فاروقی جیسا بے لوث اور اپنی پوری زندگی دعوت اسلامی کےلئے وقف کرنے کی مثالیں تحریک اسلامی کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں۔وہ اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ 1960 کے آوائل میں وہ کراچی کی ایک اچھی ملازمت چھوڑ کر لندن آئے۔

انہوں نے یہ کام اپنے جریدے کے ذریعہ کیا۔ حاشر فاروقی کے نام سے ہم 1970 کے عشرے سے واقف تھے اور اس کی وجہ ان کا جریدہ تھا جو جنگ کے ایڈیٹر انچیف میر خلیل الرحمن لندن سے شائع ہونے والے دوسرے اخبارات اور جرائد کے ساتھ پی آئی اے کے توسط سے منگواتے تھے۔ وہ ان اخبارات اور جرائد کی اہم خبروں پر نشان لگا کر فارن ڈیسک کے حوالے کرتے تھے کہ ان کی خبریں بنائی جائیں۔ یہ خبریں جنگ کے اندرونی صفحات پر شائع ہوتی تھیں۔اس ڈیسک کے انچارج سے ہم اپنی پسند کے اخبار اور جرائد پڑھنے کےلئے لیا کرتے تھے۔جن میں امپیکٹ بھی شامل تھا۔پھر ان کا ذکر پروفیسر خورشید اور سید منور حسن سے سے بہت سنا جو اسلامک فاؤڈیشن یو کے لیسٹر کے بانی سربراہ تھے اور سال کا کچھ عرصہ وہیں قیام بھی کرتے تھے۔حاشر فاروقی سے براہ راست ملنے کا شرف اگست 2019 میں اس وقت ملا جب ہم پہلی بار برطانیہ گئے۔

 حاشر فاروقی ایک مقصد کے لئے جیئے اور اسی مقصد کے لئے زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کیا اور وہ عظیم مقصد دین کی سربلندی اور انسانیت کی خدمت اور ظلم اور جبر کے خلاف جہد مسلسل کے ذریعہ اللہ تعالی کی رضا کا حصول تھا۔